کمزور قاضی کا وائرل مظلوم

غفران عباسی  اتوار 19 مئ 2019
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اکثر واقعات کا پس منظر مبہم ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اکثر واقعات کا پس منظر مبہم ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

خلیل جبران نے کہا تھا کہ ضمیر ایک انصاف پسند مگر کمزور قاضی ہے، جس کی کمزوری اس کے حکم جاری کرنے کی راہیں روکے کھڑی ہے۔ یقیناً یہی کمزور قاضی آواز تو اٹھاتا ہے مگر بعض اوقات صورتحال اُس تک ایسے پہنچتی ہے کہ حالات و واقعات قبول کرتے ہوئے کنفیوز ہوجاتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ تحریر سوشل میڈیا سے مقبول ہونے والے وائرل مظلوموں کےلیے ہے جو سارے شہر میں بدنام اونٹوں کی مانند گھومتے ہیں اور جو بعدازاں اپنے کسی اور تنازعہ کی نذر ہوکر اپنے ایشو سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا پھر وائرل ہونے کے بعد دوسرے تنازعے میں الجھ جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ سوشل میڈیا پر آنے والی زیادہ تر معلومات کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا: ’’پنچ کہیں بِلّی، تو بِلّی ہی سہی‘‘ یعنی جو سب کی رائے ہو، اُسی سے اتفاق کرنا بہتر ہے۔ مگر ہمارا معاملہ ذرا الٹ ہے۔ سب بِلی کہیں تو ہم ہرگز بلی نہیں کہتے، جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر بہت کچھ سہنے کو ملتا ہے اور ملتا رہے گا، جسے ہم مالِ غنیمت یا پھر داد سمجھ کر سمیٹ لیتے ہیں۔

ایسے ایشوز جو وائرل ہوجاتے ہیں، جن کے لیے ہم تمام لوگ اسٹیٹس لگا کر، ٹویٹ/ ری ٹویٹ کرکے، شیئر کرکے اور شور مچا کر آواز اٹھاتے ہیں، ان کے تانے بانے کہیں اور جاملتے ہیں۔ تقریباً نوے فیصد ایشوز جن پر شور مچایا جاتا ہے، ابہام زدہ ہوتے ہیں۔ ابہام زدہ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ظالم کے ظلم کو داد دے رہے ہیں یا پھر مظلوم کے مخالف ہیں۔ میرا یہاں مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمیں اُس ایشو کے پسِ منظر تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

ظلم صنف، ذات پات، مذہب اور اقلیت، اکثریت کے پیمانے سے ہٹ کر انسانیت کے پیمانے پر بھی ظلم ہی جانا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک واقعہ نظر سے گزرا جس میں ایک خاتون (جس کا تعلق غالباً کراچی سے ہے) اپنے ویڈیو پیغام میں رو رو کر اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے متعلق احتجاج ریکارڈ کروا رہی تھی۔ ہمارے ایک دوست لکھتے ہیں کہ جو ریٹنگ روتی عورت لاسکتی ہے، وہ تو مرتا مرد بھی نہیں لاسکتا۔ مشرقی مرد ہونے کے ناتے ویڈیو دیکھنے کے بعد خون کھولنے کو آرہا تھا مگر ہمیشہ کی طرح ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ والی پالیسی اپنائی۔ بعد ازاں ایک اور ویڈیو منظرِعام پر آئی جسے دیکھ کر خون ٹھنڈا پڑگیا۔ اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ لاہور میں پیش آیا جب ایک شخص نے نشے میں اپنی بیوی پر تشدد کیا اور سر کے بال مونڈ دیئے، جو کہ انسانی تضحیک تھی۔ اس پر خاصا شور مچا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن بھی لیا لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں وہاں ہی ایک اور ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہوتی ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یوں نیا تنازعہ جنم لیتا ہے۔

اوپر بیان کیے گئے دونوں واقعات میں دوسری ویڈیو معاملے کی سنگینی کو بلندی سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتی ہے اور ہمدردیاں سمیٹنے والے مظلوموں کو نقصان پہنچاتی ہے؛ جن سے اُن کا مؤقف تقریباً ابہام زدہ ثابت تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مظلوم کی کردارکشی بھی ہوجاتی ہے کہ جو آپ کے احتجاج اور ملنے والی ہمدردی پر پانی پھیرنے کےلیے کافی ہوتی ہے۔

یہاں ایک اور تکلیف دہ بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ پریکٹس جس میں پہلے مظلوم آواز اٹھائے اور پھر جب وہی آواز منہ سے نکل کر کوٹھے پہنچے تو دوسرا پہلو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت منظرِ عام پر لانا کسی اور جانب ہی اشارہ کرتا ہے۔ دوسرا حصہ آپ کی اُس اخلاقی کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے جسے آپ پیروں تلے روندتے ہوئے آگے نکل پڑے تھے۔ جہاں آپ کو پہلے ہی رک جانا چاہیے تھا یا پھر جہاں آپ نہیں رکے تو اس کا نقصان ظلم کی شکل میں آپ پر نازل ہوا۔ یوں ایک اور موضوع سوشل میڈیا کی نذر ہوا اور بدنامی آپ کے حصے میں آئی۔

یہاں یہ ساری صورتحال کنفیوزڈ قاضی کی عدالت میں جاپہنچتی ہے اور وہ بےچارہ سر کھجانا شروع کردیتا ہے اور غور کرتا ہے کہ آیا آپ پر ہونے والے ظلم کے خلاف بولے یا پھر آپ کی اخلاقی کوتاہی پر۔ بالآخر انصاف پسند مگر کمزور قاضی آپ کی اخلاقی کوتاہی کی وجہ سے آپ کے حق میں بولنے سے ہچکچاتا ہے اور خود کو خاموش رکھتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

غفران عباسی

غفران عباسی

بلاگر ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں، لکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور مختلف موضوعات پر زورِ قلم سے طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔