پشاور کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کا احتجاج دوسرے روز بھی جاری

شاہدہ پروین  جمعرات 16 مئ 2019
احتجاج کے باعث مریضوں اور تیمارداروں کو شدید مشکلات کا سامنا فوٹو:فائل

احتجاج کے باعث مریضوں اور تیمارداروں کو شدید مشکلات کا سامنا فوٹو:فائل

پشاور: صوبائی دارالحکومت کے تینوں بڑے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کا احتجاج دوسرے روز بھی جاری ہے۔

سرکاری ڈاکٹروں نے احتجاجی میدان لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں سجالیا ہے۔ جس میں ڈاکٹروں کے قافلے جوق در جوق آرہے ہیں۔ اس احتجاج میں اب خیبر میڈیکل کالج اور خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور کے فیکلٹی ممبران بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد خیبر میڈیکل کالج میں ٹیچنگ اسٹاف نے کلاسز کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ ڈاکٹروں نے اپنے نجی کلینکس کو بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ اپنے مطالبات پر عملدرآمد تک احتجاج کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹروں نے تمام سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی سروسز کا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام اوپی ڈیز ویران پڑی ہوئی ہیں جبکہ دور دراز سے آنے والے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈاکٹروں کے احتجاج کے باعث تمام اسپتالوں میں او پی ڈی اور وارڈوں میں موجود مریض شدید تکلیف سے دوچار ہیں۔ تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا جاسکا ہے۔ اسپتالوں کی انتظامیہ بھی بےبس ہوکر رہ گئی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس احتجاج کو صوبے کے تمام اسپتالوں تک توسیع دی جائے گی۔

ڈاکٹرز تنظیموں کی جانب سے اپنے ساتھی ڈاکٹر ضیاء الدین پر صوبائی وزیر صحت کے گارڈز کے مبینہ تشدد کے خلاف احتجاج اور طبی سروسز کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات کے لئے حکومت کو 48 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن بھی دے رکھی ہے جس میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ اور ڈاکٹر نوشیروان برکی سے استعفی کا مطالبہ، ڈاکٹروں پر پولیس تھانے میں تشدد پر متعلقہ پولیس آفیسر کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر انکوائری مقرر کرنے کے مطالبات کئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی اور ریجنل ہیلتھ اتھارٹی کے حوالے سے عید تک حکومت کو مہلت دی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال نے اس معاملے پر پروفیسر ڈاکٹر محمود اورنگزیب انچارج سرجیکل اے یونٹ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی مقرر کردی ہے۔ جو اپنی رپورٹ 48 گھنٹوں میں بورڈ آف گورنرز کو جمع کرائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔