- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
موبائل زدہ معاشرہ
دسمبر 2017 میں میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ایک جریدے ’’ایم آئی ٹی سلون مینجمنٹ ریویو‘‘ میں ایک مضمون Surviving a day without smartphones (اسمارٹ فونز کے بغیر ایک دن کی بقاء) کے عنوان سے شائع ہوا جس میں حاصل ہونے والے نتائج نہ صرف مغربی معاشرے بلکہ ہمارے پاکستانی معاشرے کےلیے بھی حد درجہ توجہ طلب ہیں۔
تحقیق کے تجرباتی آغاز کےلیے اٹلی اور فرانس کے دو بزنس اسکولوں کے طلبا پر ایک دن کےلیے موبائل کلاس میں لانے پر پابندی لگائی گئی اور اس کے نتیجے میں جو مشاہدات سامنے آئے وہ کچھ اس طرح کے تھے:
بیشتر طلبا سوچوں میں غلطاں اور ڈپریشن کا شکار نظر آئے، جبکہ اکثریت کی مثال اس طرح تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛
کچھ طلبا کو اپنا فری پیریڈ اور بریک ٹائم گزارنے میں دِقت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ان میں بوریت اور ذہنی کوفت کے ساتھ ساتھ غصہ اور افسوس کا تاثر بھی دیکھنے کو ملا؛ اور
مزید ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ چند برسوں میں، خصوصاً 2010 سے 2015 کے درمیان، ٹین ایجرز میں ڈپریشن اور خودکشی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی ٹیم نے آن لائن ایکٹیویٹیز اور ان کے دماغی صحت پر اثرات کے بارے میں خطرناک انکشافات بھی کیے۔
اب آتے ہیں ہم پاکستانی معاشرے کی طرف، جہاں سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ایک روایت بن چکا ہے، لیکن بذاتِ خود ہمارا سوشل رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک طرف جہاں ہم ٹیکنالوجی مینیجمنٹ سے نابلد ہیںٍ، وہیں بیشتر ٹائم پاس اور تفریح کے نام پر قوم کو اخلاقیات اور مزاح کی پستی میں گرانے والی ایک سے بڑھ کر ایک موبائل ایپس دستیاب ہیں۔ ذرا غور کیجیے، کیا اوپر بیان کیے گئے مشاہدات ہمارے معاشرے پر صادق نہیں آتے؟ کیا ہم یا ہمارے اردگرد موجود لوگ، خصوصاً نوجوان، عدم برداشت اور ذہنی عدم توازن کا شکار تو نہیں؟
یہاں پر سوال یہ نہیں کہ اسمارٹ فونز ہماری زندگیوں کو کس طرح آسان بنارہے ہیں، اصل نکتہ یہ ہے کہ کیا ہم نے سوچا کہ اس کی ہمیں کیا قیمت چکانا پڑرہی ہے؟ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موبائل فونز کا بے دریغ استعمال ہماری دماغی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
’’موبائل فون نشے‘‘ کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس کا ادراک نہیں، اسی لیے ہم بحیثیت والدین خود بھی اس میں برابر کے قصوروار ہیں۔ بیٹے کے اچھے نمبر آئے نہیں اور موبائل پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گرا نہیں۔ نتیجتاً آج کل کے اسمارٹ فون بھی کچھ کچھ ’’معشوق مزاج‘‘ صلاحیتوں کے حامل ہوگئے ہیں۔ کسی کے ہاتھوں میں گئے اور پل بھر میں اسے اپنا بنالیا۔
یاد رکھیے! آپ کے بچے کی ذہنی نشوونما موبائل سرگرمی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر کہیں کوئی ایسی ضرورت پیش آبھی جائے تو بچے کو پاس بٹھا کر اپنی نگرانی میں تعلیمی ایپس استعمال کروائی جاسکتی ہیں، چہ جائیکہ اسے مستقل طور پر موبائل فون سے نواز دیا جائے۔ تعلیمی اداروں کو اس معاملے میں خصوصی توجہ اور آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو کس طرح اپنے روزمرہ معاملات میں شامل کیا جائے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا معاشرہ ایک موبائل زدہ معاشرہ بن کر رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔