مجھے بدعنوان لوگ اچھے لگتے ہیں

خرم علی راؤ  منگل 21 مئ 2019
بدعنوان لوگ مکافات عمل کے بالکل قائل نہیں ہوتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بدعنوان لوگ مکافات عمل کے بالکل قائل نہیں ہوتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جون ایلیا مرحوم بلا کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے طبیب حاذق اور کمال کی زبان لکھنے والوں میں سے تھے۔ کیوں نہ ہوتے آخر ایک ادبی گھرانے کے فرزند تھے۔ ان کا ایک فقرہ بڑا دل کو لگا۔ فرمایا کہ مجھے بدکردار عورتیں اچھی لگتی ہیں۔ اب اس کی تشریح تو شاید انہوں نے کہیں بزم یاراں یا حلقۂ احباب میں کبھی کی ہوگی، مگر ہم جیسے طالب علموں کو اس فقرے سے یہ تحریر لکھنے کی راہ مل گئی کہ اگر میں کہوں ’’مجھے بدعنوان لوگ اچھے لگتے ہیں‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔

ہائیں! کیوں بھئی؟ کیوں اچھے لگتے ہیں بدعنوان لوگ۔ کرپشن کرنے والے۔ لوگوں کو چونا لگانے والے۔ کیوں اچھے لگتے ہیں؟ یہ تو آپ برائی اور بدعنوانی کو رومانویت مہیا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ ایسے معترضاںہ خیالات ذہنوں میں آسکتے ہیں مذکورہ بالا فقرے کے جواب میں، جو کہ بالکل درست بات ہے۔ مگر غلط وہ بھی نہیں جو لکھا گیا ہے۔

ایک جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھئی اچھا لگنے کو تو کسی کو کچھ بھی اچھا لگ سکتا ہے، مگر بات بنے گی نہیں۔ تو ذرا بات بنانے کو کوشش کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ بدعنوان افراد کی آپ محنت، کوشش اور جدوجہد کو تو ذرا دیکھیے۔ کتنی محنت سے بدعنوانی کرتے ہیں۔ کیسے کیسے ڈر اور خوف کا دلیری سے سینہ تان کر سامنا کرتے ہیں، مثلاً پکڑے جانے کا ڈر، کرپٹ مشہور ہوجانے کا ڈر اور ضمیر کی طعن و تشنیع کا ڈر، خواہ اسے کتنا ہی ضعیف کر ڈالا ہو۔ نفس و لذات کے حصول کا قیدی بن جانے کا ڈر۔ ویسے نفس اور ضمیر سے ایک بات یاد آئی کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ نفس وہ کتا ہے جو مسلسل گناہ کروانے کے لیے بھونکتا رہتا ہے اور جب گناہ کرالیتا ہے تو ضمیر کو جگا کر خود لمبی تان کر سوجاتا ہے، شریر کہیں کا۔ خیر یہ جملۂ معترضہ تو یونہی درمیان میں آ گیا، بات ہورہی تھی بدعنوان افراد کی۔

اب بدعنوان لوگوں کی ذہانت جسے شیطانی ذہانت سے اگر تعبیر کیا جائے تو بےجا نہ ہوگا، کی بات کریں تو جناب بندہ دنگ رہ جاتا ہے کہ کیسے کیسے طریقے، نسخے اور فارمولے ایجاد کرلیتے ہیں یہ بدعنوانی کے۔ واہ کیا بات ہے۔ ابھی شاید آپ نے بھی پڑھا ہو کہ لاہور میں ایک پٹرول پمپ پر کوئی خاتون پٹرول ڈلوانے رکیں تو ایک خوش پوش نوجوان نے خود کو آن لائن کاسمیٹکس کا سیلزمین متعارف کراتے ہوئے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا کہ میڈم آپ فون کیجیے گا، بہترین پروڈکٹس کم قیمت پر گھر بیٹھے مل جائیں گی۔ انہوں نے کارڈ رکھ لیا، کچھ آگے گئیں تو سر چکرانے لگا اور بے ہوش ہونے جیسی حالت ہوگئی۔ انہوں نے فوراً کسی کو فون کردیا اور گاڑی وہیں روک دی کہ اتنے میں وہی سیلزمین بائیک پر آگیا اور کارروائی کرنے ہی والا تھا کہ نیم بےہوش خاتون کی کمک آگئی اور وہ رنگے ہاتھوں لوٹ مار کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ پتہ چلا کہ موصوف کے وزیٹنگ کارڈ پر کوئی ایسا کمیکل لگا ہوا تھا جس کے بخارات انسان کو بے ہوش کردیتے تھے۔ اور وہ کئی وارداتیں اس طرح کرچکا تھا۔ دیکھی آپ نے ذہانت، مگر منفی سی۔ تو بلاشبہ بدعنوان افراد کی ذہانت میں کوئی کلام نہیں۔ یہ بھی وجہ پسندیدگی بنتی ہے۔

اب آگے چلیں۔ عام طور پر بدعنوان افراد بڑے خدا ترس بھی ہوتے ہیں، جیسے رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو وغیرہ ٹائپ۔ یعنی لوگوں کو لوٹ کر دیگر مستحق لوگوں کی اس پیسے سے خوب مدد کیا کرتے ہیں۔ حصہ بقدر جثہ کے مصداق جو جتنا بڑا بدعنوان ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا سخی بھی اکثروبیشتر ہوا ہی کرتا ہے۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ جو جتنا سخی ہو اتنا ہی بدعنوان بھی ہو۔ یہ لطیف فرق ذرا ملحوظ خاطر رکھیے گا کہ بہت سے اپنی حق حلال کی کمائی سے بھی امداد و سخاوت کرتے ہیں، خاص طور پر رمضان المبارک میں۔

تو بدعنوان افراد میں دیگر خوبیاں بھی یقیناً ہوں گی اور ہوتی ہیں، لیکن کسی کو پسند کرنے کےلیے کیا یہ کافی نہیں کہ وہ دلیر ہو، ڈر سے لڑنا جانتا ہو، ذہین اور چالاک ہو اور ہر قسم کے نامساعد حالات میں اپنی ذہانت اور عیاری سے اپنا کام نکالنا جانتا ہو اور پھر سب سے بڑھ کر غریبوں کے کام آتا ہو، چاہے حرام کے پیسے سے ہی کیوں نہ ہو۔ تو یہ خوبیاں کسی بھی فرد کو، طبقے کو یا گروہ کو پسند کرنے کےلیے میرا نہیں خیال کہ ناکافی ہیں۔ اور پھر یہ بدعنوان لوگ اگر نہ ہوں تو پھر آپ دیکھیں اور سوچئے کہ کتنے سارے ادارے بند کرنے پڑجائیں گے، جو ان حضرات کو پکڑنے کےلیے بنائے گئے ہیں اور ان اداروں کے بند ہوجانے سے بے روزگاری میں کتنا اضافہ ہوجانے کا خطرہ ہے ۔ تو اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو بدعنوان لوگ کتنے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، جو کہ بلامبالغہ ایک قابل توصیف و تحسین بات ہے۔

تو بھائی مجھے تو بدعنوان لوگ اچھے لگتے ہیں، کسی کو لگیں یا نہ لگیں۔ ایک اور اچھی بات تو ان حضرات کی بتانا بھول ہی گیا جناب کہ یہ لوگ مکافات عمل کے بالکل قائل نہیں ہوتے اور ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘ جیسے فرسودہ اور آؤٹ آف ڈیٹ محاوروں کا دیدہ دلیری سے اپنے بدعنوانی کے اعمال و افعال کو انجام دیتے ہوئے عملی مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں اور گویا بذبان حال یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ اجی! وہاں کی وہاں دیکھی جائے گی پہلے یہاں تو جنت بنالویار۔ اور پھر اپنی محنت، استقلال اور بدعنوانی کے جنون کو بروئے کار لاتے ہوئے سرتوڑ جدوجہد کرکے وہ دنیا والوں کو شداد کی جنت کے جیسی اپنی اپنی جنتیں بنا کر دکھا ہی دیتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ہمچو ما دیگرے نیست۔ تو اسی لیے مجھے بدعنوان لوگ اچھے لگتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔