یتیموں کا دن اور ہماری ذمے داریاں

مجدی رشید  منگل 21 مئ 2019
’’یونیسیف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’یونیسیف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اقوام متحدہ کے ادارے ’’یونیسیف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت 14 کروڑ سے زائد بچے یتیم ہیں اور ان بچوں میں 6 کروڑ صرف ایشیا میں موجود ہیں۔ دنیا میں موجود ان 14 کروڑ بچوں میں 1 کروڑ 50 لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے ماں اور باپ دونوں موجود نہیں ہیں۔ 95 فیصد یتیم بچوں کی عمر 5 سے 16 سال ہے۔چند مسلم ممالک عراق، افغانستان، فلسطین اور شام میں بھی گزشتہ چند سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث یتیم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں بھی یتیم بچوں کے حوالے سے صورتحال مختلف نہیں۔ گزشتہ عشرے میں آنے والی ناگہانی آفات، بدامنی کے خلاف جنگ، صحت عامہ کی سہولیات کی کمی اور روزمرہ حادثات کے باعث جہاں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں لاکھوں بچے بھی اپنے خاندان کے کفیل سے محروم ہوگئے اور معاشرے کے یتیم ٹھہرے۔

’’یونیسیف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں، جن کی عمریں 17 سال سے کم ہیں اور ان میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں تعلیم وتربیت، صحت اور خوراک کی مناسب سہولیات میسر نہیں۔ بدقسمتی سے روزبروز بگڑتی معاشی صورتحال، کم آمدنی اور سماجی رویوں کے باعث بھی یتیموں کے خاندان کےلیے اُس کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ بچے تعلیم و تربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی اور سماجی محرومیوں کا شکار ہیں، بلکہ کئی تو بے راہ روی تک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ توجہ اور بنیادی سہولیات نہ ملنے کے باعث ان کی تعلیم و تربیت ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

تعلیم، صحت، خوراک اور ذہنی و جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ضرویات سے محرومی تو اِن بچوں کا مقدر ٹھہرتا ہی ہے، لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بچوں کو کتابیں پکڑنے کے بجائے اوزار اٹھانے پڑتے ہیں، چائلڈ لیبر کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں معاشرے میں چھپے مسخ چہرے انہی بچوں کو منشیات، گداگری، اسمگلنگ اور جنسی زیادتی جیسے گھنائونے جرائم میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑا مافیا بچوں کی اسمگلنگ کرتا ہے، جس میں بچوں کے اعضا تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ جو بچے اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہے ہیں، ان کےلیے بچوں کے اخراجات مکمل کرنا بھی کبھی مشکل تو کبھی ناممکن ہوجاتا ہے۔

پاکستان آرفن کیئر فورم (Pakistan Orphans Care Forum)

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بیسیوں ملکی اور بین الاقوامی فلاحی ادارے ایسے ہیں، جو یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کےلیے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ادارے یتیم بچوں کی کفالت کےلیے گھروں کی تعمیر (یتیم خانے) کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور کچھ ادارے ملک بھر میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام ان کے گھروں پر کررہے ہیں۔ پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت کرنے والے انہی اداروں نے پاکستان میں یتیم بچوں کے مسائل اور معاشرے کی اجتماعی ذمے داریوں کا شعور اجاگر کرنے کےلیے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ تشکیل دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہر سال 15 رمضان کو ’’یوم یتامیٰ‘‘ کے طور پر منایا جائے گا۔

یومِ یتامی کا پس منظر

اِس دن کے منانے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) نے پہلی بار ترکی کی معروف سماجی مددگار تنظیم آئی ایچ ایچ کی تجویز پر اپنے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 40 ویں سیشن، منعقدہ 9 تا 11 دسمبر 2013 بمقام کوناکرے (گنیا) میں قرارداد نمبر 1/40-ICHAD، آرٹیکل نمبر 21 میں یہ فیصلہ کیا کہ تمام اسلامی ممالک میں 15 رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے دن کے طور پر منایا جائے۔ اس دن یتیم بچوں کی فلاح و بہبود، کفالت اور عملی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کےلیے تمام ممبر ممالک کی حکومتیں، سول سوسائٹی اور رفاہی ادارے بھرپور آواز اٹھائیں۔ اس تجویز کو دنیا بھر میں یتیم بچوں کی کفالت اور فلاح و بہبود کےلیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں نے نہ صرف سراہا بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ اسی کارخیر کا حصہ بنتے ہوئے پاکستان میں یتیم بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والے رفاہی اداروں نے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں یوم یتامیٰ منانے کا فیصلہ کیا اور اسے مزید موثراور مفید بنانے کےلیے 15 رمضان کو سرکاری سطح پر منانے کی کوششوں کا آغاز کیا، تاکہ حکومتی سرپرستی مل جانے کے بعد اس کے ثمرات ملک میں بسنے والے ہر ایک یتیم اور بے سہارا تک پہنچائے جاسکیں۔

پاکستان آرفن کیئر فورم کی انہی کاوشوں کے نتیجے میں سینیٹ آف پاکستان نے 20 مئی 2016 کو پاکستان میں بھی ہر سال 15 رمضان المبارک کو لاوارث و یتیم بچوں کے دن کے طور پر منانے کے لیے ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔ جس کو بعد ازاں 29 مئی 2018 کو قومی اسمبلی میں بھی متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اسلامی تعلیمات اور یتامیٰ:

اسلام نے جن اعمال کو بہت واضح طور پر صالح اعمال قرار دیا ہے، ان میں یتیموں اور مسکینوں کی مدد کو ترجیح دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ

’’اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ سکے گی۔‘‘ (النساء ۔127)

نبیﷺ خود بھی ایک یتیم تھے اور اسی لیے جہاں آپﷺ اوروں کے ساتھ صلہ رحمی، عدل، پاک دامنی، صداقت و درگزر کا پیکر تھے، وہاں مسکینوں، بیوائوں اور خصوصاََ یتیموں کے لیے سب سے بڑھ کر پیکر ضود و سخا تھے۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح (قریب) ساتھ ہوں گے۔ ‘‘ (اور آپ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیا) بخاری شریف

یوم یتامیٰ اور ہماری ذمے داریاں

آج کا یتیم کل کا جوان ہوگا اور یہ حقیقت ہے کہ بچپن میں بچہ جن محرومیوں اور احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے، اُس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ اور یہ محرومیاں اس بچے کے مستقبل پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ یتیم بچہ، جو ملک و قوم کا وارث بننے جارہا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ شفقت و محبت سے نوازیں۔ اگر بچپن میں یتیم کو آوارہ چھوڑ دیا گیا اور اس نے غلط تربیت پائی تو یہ اپنے معاشرے کےلیے مفید شہری ثابت ہونے کے بجائے خطرہ بن جائے گا۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور معاشرے اور حکومت کو توجہ دلائی جائے کہ اگر ان یتیم بچوں کا سہارا نہ بنا گیا اور ان کی تعلیم و تربیت کےلیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ان بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنے وطن میں یتیم بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس معاشرے کا کارآمد شہری اور فرد بنایا جاسکے۔ اس ضمن میں اس نکتے کو سمجھنا اور نمایاں کرنا بہت ضروری ہے کہ یتامیٰ کی کفالت کسی ایک فرد یا ادارے کی ذمے داری نہیں، بلکہ معاشرے اور قوم کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ ہر بچے میں خداداد صلاحیتیں ہیں، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس یتیم بچے کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ ایک مفید شہری کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مجدی رشید

مجدی رشید

بلاگر نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ مختلف چینلز کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد آج کل ایک رفاعی تنظیم میں میڈیا ریلیشنز آفیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ طبیعت کی حساسیت اور صحافت سے لگاؤ کے باعث گردونواح میں ہونے والے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُسے احاطہءِ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔