زہر کی تجارت کرنے والا بھارتی قبیلہ

سید بابر علی  اتوار 19 مئ 2019
ارولا قبیلے کے لوگ سانپوں کی جان لیے بغیر ان سے زندگی کشید کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ارولا قبیلے کے لوگ سانپوں کی جان لیے بغیر ان سے زندگی کشید کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کبھی آپ کا گزر کسی کچی بستی سے ہوا ہے؟ یقیناً آپ نے سیکڑوں کچی بستیاں دیکھی ہوں گی۔ اور آپ اپنے تخیل کی مدد سے اپنے ذہن میں وہاں کے مختلف مناظر تازہ بھی کرسکتے ہیں۔

آپ کے دماغ کی اسکرین پر اُبھرتی تصویروں میں جھونپڑیاں، ان کے باہر رکھی چارپائیاں، ذرا فاصلے پر بیٹھ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی ہوئی عورتیں، ننگے پائوں اور بعض ننگے بدن بچے بھی پھٹے ہوئے اور گندے کپڑے پہنے کھیل کُود میں مگن نظر آرہے ہوں گے۔ کہیں چائے پیتے اور حلقۂ یاراں میں سستے سگریٹ کا دھواں اڑاتے بوڑھوں کے ساتھ چند بے فکرے جوانوں کی اپنے ہم خیالوں سے سنگت کا عکس بھی نمایاں ہُوا ہوگا۔ اس کے ساتھ آپ بے ترتیب گلیوں، اونچے نیچے راستوں پر گندے پانی اور غلاظت کے ساتھ بے شمار مکھیاں، اور کتے، بلیاں بھی دیکھ رہے ہوں گے، جن کے آوارہ اور پالتو ہونے میں تمیز مشکل ہوتی ہے۔

آپ کا یہ تصور یقیناً درست ہے، لیکن اس میں ’سانپ‘ کو بھی شامل کر لیجیے۔ سپیروں یا جوگیوں کا کردار ہمیشہ ہی سے پُراسرار رہا ہے، ان جوگیوں کی روزی روٹی کا دارومدار ہی سانپوں کو پکڑنے اور گلی محلوں میں تماشا دکھانے پر ہوتا ہے۔ زہریلے سانپوں کے ساتھ شب و روز بسر کرنے والے یہ جوگی سانپ کے زہر کا تریاق کسی دوائی یا جڑی بوٹی سے نہیں بلکہ ’’سانپ کے منکے‘‘ سے کرتے ہیں۔ کچھ جوگی زہریلے سانپوں کا زہر نکالنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ عموماً کسی بھی سانپ کو قابو میں کرنے کے لیے بین استعمال کی جاتی ہے، جس کو بجانا بھی ایک فن سمجھا جاتا ہے، بین کی سُریلی آواز سے سانپ بے اختیار ہوکر جھومنے لگتا ہے اور سپیرا اس موقع کا فائدہ اْٹھا کر اْس کو پکڑ لیتا ہے۔ بعض سپیرے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھا کر روزی کماتے ہیں۔ خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والے یہ سپیرے ہماری ثقافت اور تہذیب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

بھارت ریا ست تامل ناڈو میں صدیوں پرانے قبیلے ارولا کے ارکان کا کام بھی سپیروں کی طرح سانپ پکڑنا ہی ہے، لیکن وہ ان سانپوں کو بین بجا کر انسانوں کے سامنے جھومنے پر مجبور نہیں کرتے، وہ تفریح طبع کی خاطر ان سانپوں کو نیولے سے لڑا کر چند کھنکتے سکے جمع نہیں کرتے۔ ارولا قبیلے کے یہ لوگ ان سانپوں کی جان لیے بنا انسانوں کی زندگی بچا نے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس راز کو جاننے کے لیے ہمیں اس قدیم قبیلے کے پس منظر میں جانا ہوگا۔ بھارتی شہر چنائے کے مضافات میں واقع ساحلی گائوں ودانیملی میں کاروبار زندگی کا آغاز ہوچکا ہے۔ خلیج بنگال کاپانی سورج کی کرنوں کی وجہ سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے۔ ساحل کے قریب ہی راجیندرا نامی شخص ایک پٹاری کاندھے سے لٹکائے زمین پر کچھ تلاش کر رہا ہے۔ راجیندرا کا تعلق ارولا قبیلے سے ہے، یہ انڈیا کی قدیم ترین کمیونیٹیز میں سے ایک ہے، جو ریاست تامل ناڈو کی شمال مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ زمانہ قدیم سے رہائش پذیر ہیں۔

اس قبیلے کے باشندوں کی شناخت سانپوں کے متعلق بے پناہ معلومات اور مہارت ہے۔ اس گائوں کو غیرمرئی طور پر بھارت کے صحت عامہ کے نظام میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔ راجنیدرا کا روزگار بھی انہی خطرناک زہریلے سانپوں سے وابستہ ہے۔ انہی سانپوں کے ساتھ کھیل کر جوان ہونے والے راجیندرا کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ سانپوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سانپ کو صرف اپنے تحفظ سے دل چسپی ہوتی ہے اور اگر اسے آپ سے خطرہ محسوس نہیں ہوگا تو وہ کبھی آپ پر حملہ نہیں کرے گا۔ ہماری ہل چل کو سانپ اپنے لیے خطرہ محسوس کرکے حملہ کرسکتا ہے۔ راجیندرا اور گائوں کے بہت سے افراد کا ذریعہ معاش یہی زہریلے سانپ ہیں، یہ لوگ کوبرا اور اس طرح کے دیگر زہریلے سانپوں کو ’ارولا اسنیک کیچر انڈسٹریل کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی‘ میں واقع دفاتر میں لے جا کر ان کا زہر فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ 1978میں قائم ہونے والی اس صنعتی سوسائٹی میں پکڑے گئے سانپوں کا زہر کشید کرنے کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

بھارت میں ہر سال 50 ہزار افراد سانپ کے کاٹنے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں، انڈیا میں چھے بڑی ادویہ ساز کمپنیاں سالانہ15لاکھ سانپ کے تریاق کے انجکشن تیار کرتی ہیں، ان انجکشنوں کی اکثریت میں تریاق کے طور پر استعمال کیا گیا زہر ارولا قبائلیوں کے پکڑے گئے سانپوں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ گھانس پھونس سے بنے سانپ کا زہر کشید کرنے والے مراکز میں سے ایک ہے، نشیب میں بنے اس مرکز میں دیواروں کے ساتھ سانپوں کو رکھنے کے لیے مٹی کے مرتبان اور درمیان میں ایک سیاہ تختہ رکھا ہوا ہے، جس میں اس مرکز میں آنے والے سانپوں کی تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ سانپ کو اس مٹی کے مرتبان میں ڈالنے سے پہلے اس میں مٹی بھری جاتی ہے، اس کے بعد سانپ کو اس میں ڈال کر اس مرتبان کا منہ ایک جالی دار کپڑے سے اچھی طرح بند کردیا جاتا ہے کہ ہوا اندر جاتی رہے اور سانپ باہر نہ نکل سکے۔ ایک مرتبان میں دو سانپ رکھے جاتے ہیں۔ ان مراکز میں ایک وقت میں 800 سانپوں کو رکھنے کا لائسنس ہے۔

یہاں ہر سانپ کو 21دن رکھ کر چار مرتبہ اس کا زہر کشید کیا جاتا ہے۔ ان سانپوں سے زہر کشید کرنے کے بعد انہیں واپس جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن انہیں آزاد کرنے سے پہلے ان کے پیٹ پر ایک نشان لگادیا جاتا ہے تاکہ ایک ہی سانپ کو بار بار نہ پکڑا جائے۔ یہ نشان چند مرتبہ کینچلی بدلنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ بچپن سے ہی جنگلوں، ویرانوں میں سانپوں کے ساتھ وقت گزارنے والے راجیندرا کے لیے دنیا کا زہریلا ترین سانپ بھی ایک پالتو جانور کی طرح ہی ہے۔

اس بابت راجیندرا کا کہنا ہے کہ دس سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی میں سیکڑوں سانپ پکڑ چکا تھا۔ روایتی سپیروں کے برعکس ارولا قبیلے کے لوگوں کا سانپ پکڑنے کا طریقہ قدرے مختلف ہے۔ اس سارے کام میں ’خاموشی‘ اولین شرط ہے۔ یہ جبلی طور پر اس بات کی اہمیت سے واقف ہیں اسی لیے گروپ کی شکل میں یہ دبے پائوں کوئی آواز نکالے بنا اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے اپنے کوڈ ورڈ ہیں۔ ارولا کمیونٹی کا نسب اور سانپوں کے ساتھ اُن کا باہمی تعلق پُراسراریت کی دبیز تہہ تلے دبا ہوا ہے، لیکن ان کی اساطیر مقامی روایات اور اس خطے کی بولی کا امتزاج ہے۔ ان کی مرکزی دیوی کا نام ’کانی اماں‘ ہے جس کا گہرا ربط کوبرا سانپ سے ہے۔ اس دیوی کی عبادت میں ان کے مذہبی پیشوا وجد کی کیفیت میں آکر سانپ کی طرح پھنکارتے ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط تک ہزاروں ارولاز کا ذریعہ معاش کھال کے لیے سانپوں کا شکار کرنا تھا، لیکن اپنی دیوی کی تعظیم میں وہ سانپوں کا گوشت نہیں کھاتے۔ مقامی دباغ (چمڑا رنگنے والے) انہیں ایک سانپ کی کھال کے دس سے پچاس روپے تک ادا کرتے تھے، اور پھر کھالوں کو پراسیس کرکے امریکا اور یورپ برآمد کردیا جاتا تھا، جہاں کی فیشن انڈسٹری میں سانپ کی کھال کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ 1972میں انڈیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون بنا کر جانوروں بہ شمول سانپوں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔ پچاس سال سے ارولاز کے ساتھ کام کرنے والے ماہرحشریات اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی رومو لس وائٹکر کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون نے اس قبیلے کو معاشی طور پر بہت کم زور کردیا تھا۔

سانپ کی کھالوں کی فروخت سے ملنے والی معمولی رقم بہت سے ارولاخاندانوں کی ماہانہ آمدن کا بڑا حصہ تھی، یوں سمجھ لیں کہ ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔ کوآپریٹیو سوسائٹی کا قیام ان کے معاشی حالات میں بہتری کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اگرچہ اس سوسائٹی نے ان کی آبادی کے ایک فی صد سے بھی کم لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے، لیکن اس سے کم از کم ان کی سانپ پکڑنے کی مہارت کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اور مقامی سرکاری حکام انہیں شکاری تصور کرتے ہیں، تاہم اس خطے کی دوسری کمیونیٹیز میں انہیں شک کی دیکھا جاتا ہے اور سانپوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ تعصب بھی برتا جاتا ہے۔ انہیں توہین آمیز ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے، اور پیسوں کے لین دین میں ان کے ساتھ اکثر دھوکادہی کی جاتی ہے۔

شرح خواندگی بہت کم ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کے بہت سے مرد و خواتین چاول کی ملوں میں جبری مشقت کرتے ہیں۔ سانپوں کے بارے میں معلومات کی بنا پر اس قبیلے کے دو افراد کو فلوریڈا فش اینڈ وائلڈ لائف کنزرویشن کمیشن کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔ میسی اور ویدویل نامی ان دونوں افراد نے فلوریڈا کا دورہ کیا، جس کا مقصد ایور گلیڈیز نیشنل پارک میں موجود برمی نسل کے اژدہوں کو درپیش مسائل میں کمی کے لیے شروع کیے گئے ایک پراجیکٹ میں حصہ لینا تھا۔ ان اژدہوں کی بڑے پیمانے پر بڑھتی ہوئی آبادی سے اس نیشنل پارک میں چھوٹے ممالیہ جانوروں کی آبادی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ دو ماہ کے عرصے میں میسی اور ویدویل نے 34 اژدہوں کو پکڑ لیا، جب کہ ان اژدہوں کو تربیت یافتہ کتے اور امریکی شکاری بھی پکڑنے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آباد کاری آہستہ آہستہ دنیا کے قدیم ترین قبائل میں سے ایک ارولا کو بھی نگل رہی ہے۔

حال ہی میں عالمی ادارہ برائے صحت نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کے جن سانپوں کا زہر حاصل کیا جائے انہیں مکمل طور پر قید رکھنا لازمی ہے، ڈبلیو ایچ او کی اس تجویز سے جنگلی سانپ پکڑنے والے ارولاز کی طلب کم ہوسکتی ہے۔ جیتندرا، میسی اور ویدیویل شاید سانپوں کو سمجھنے والی ارولاز کی آخری نسل ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ارولا بچوں کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے سانپ پکڑنے کے روایتی ہنر کے بجائے کسی نہ کسی طرح بھارتی معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ اب بہت سے بچوں جنگلوں میں اپنے والدین کے ساتھ سانپ پکڑنے کے بجائے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، اور ان کی نوجوان نسل کی اکثریت کو اب سانپوں سے خوف آتا ہے۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے اور نسلی امتیاز کی وجہ سے انڈیا کا صدیوں پرانا اساطیری روایات کا حامل قبیلہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

٭ سانپ کے زہر کی اثرپذیری
مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہو جاتا ہے۔
کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

٭سانپوں سے متعلق اساطیر اور چند حقائق
سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر اس خطّے میں نمایاں ہے۔ سانپوں سے جڑی اساطیر کی اثرانگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریعُ الاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارومدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔ ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔

بعض ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بُو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔ سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔ زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سے جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

٭سانپوں سے بچنے کا طریقہ
سانپوں کے زندگی بسر کرنے والے جوگیوں کے مطابق جس جگہ سانپ کی موجودگی کے امکانات ہوں، وہاں زمین پر اپنا پائوں زور سے رکھتے ہوئے چلنا چاہیے، کیوں کہ سانپ معمولی ترین ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارتعاش محسوس کرکے ہی وہ اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس سانپ پکڑنے والے ایسی جگہوں پر بہت آہستگی سے اپنے قدم زمین پر رکھتے ہیں۔ ایک ہی نسل کے سانپ کا زہر اور ڈسنے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔

اِس کا انحصار اُن کی خوراک اور ماحول پر ہوتا ہے۔ ریگستانی یا پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے سانپوں میں زہر کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ سانپوں کے بادشاہ کو بلیک کوبرا کہا جاتا ہے، جس کی عمر سو سال ہوجانے کے بعد وہ نہ صرف اپنا رنگ بلکہ حلیہ بھی تبدیل کرسکتا ہے اور یہ بہت مشہور بات ہے۔ کافی عرصے پہلے کی بات ہے کہ سانپ کا زہر چوس کر جسم سے نکالا جاتا تھا، لیکن اب دور جدید کے معالجین اس طریقے کو نہیں مانتے۔

سید بابر علی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔