نئے صوبوں کی بحث

ایڈیٹوریل  جمعـء 17 مئ 2019
سیاستدان در حقیقت ملک کو درپیش پیچ در پیچ بحرانوں سے اغماض برت رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

سیاستدان در حقیقت ملک کو درپیش پیچ در پیچ بحرانوں سے اغماض برت رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے ممتاز رہنما شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ  بنانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، پیپلز پارٹی نے مثبت جواب دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں ساتھ دے، (ن) لیگ سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ بہاولپور صوبہ ویسے بھی منطقی بات نہیں ہے،جنوبی پنجاب صوبے کی جدوجہد گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے، یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ صرف تین ضلعوں پر مشتمل صوبہ بنایا جائے، پیپلزپارٹی کے ساتھ اگلے اجلاس میں خورشید شاہ، نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف کے ساتھ اس مسئلے پر مزید بات چیت ہوگی،ہم قومی اسمبلی میں ن لیگ سمیت دیگر جماعتوں کو بھی قائل کریں گے، ق لیگ کی قیادت کو صوبے کے قیام کے لیے اعتماد میں لیا جائے گا۔

ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث پھر سے ہورہی ہے، جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے پی ٹی آئی کے بل سے پہلے ن لیگ کے رہنما رانا ثنااللہ کی جانب سے قومی اسمبلی اور اس کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ن کا بل بھی موجود ہے۔

سیاستدان در حقیقت ملک کو درپیش پیچ در پیچ بحرانوں سے اغماض برت رہے ہیں،حالانکہ ملکی معیشت کی زبوں حالی ، سیاسی محاذ آرائی ، پارلیمنٹ میں لفظی گولہ باری کے ماحول میں نئے صوبوں کی حساسیت سے معمور بحث کا کوئی جواز نہیں ہے، یوں سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں کا صوبوں کے قیام کی بحث پر اضطراب پیدا ہوجانا فطری ہے۔

سیاست دانوں کو زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے ایسی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہئے جسے مفاد پرست اور ملک دشمن اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرسکیں۔ آئین کا حوالہ سیاست دان بہت دیتے ہیں مگر انھیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، مینیوورنگ اور جوڑتوڑ سے سسٹم کو  نقصان صائب عمل نہیں ہے،انتشار اور انارکی کو موجودہ صورتحال میںبس چنگاری کی ضرورت ہوگی، ہماری صوبائی حکومتیں جن سے معمول کے صوبائی معاملات نہیں سنبھل رہے وہ نئے صوبوں کا پینڈورا باکس کھولنے کی حمایت میں پیش پیش رہ کر کیا ہدف پورا کرنا چاہیں گی ۔ قوم میں صوبائی یا لسانی تقسیم پیدا کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اس نازک وقت میں جبکہ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اسے عوام کو  دلفریب خواب دکھانے میں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

اولین ترجیح ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہونا چاہیے، باقی مسلے بعد میں حل ہوتے رہیں گے۔ یہ قوم لالی پاپ سے تنگ آچکی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں نئے صوبوں کے قیام میں مخلص ہیں اور سیاست بھی نفسیاتی اور جذباتی طور پر ہیجان انگیز نہیں، حالات نارمل اور معاشی عدم استحکام کو کئی خطرہ نہیں تو بسم اللہ کیجئے ، ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنادیجیے، تمام سٹیک ہولڈرز کی اس میں نمائندگی ہو اور معاملات پر عملیت پسندی اور حقیقی جمہوری جذبہ اور عوام کی امنگوں کی مطابق مقصد کے حصول میں آگے بڑھا جائے ۔ تاہم سیاسی و جمہوری قوتیں اور سیاسی قائدین جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی وکالت کرتے ہوئے اس بات کا ضرور ادراک کریں کہ خیبرپختونخوا، میں ہندکو ہزارہ، بلوچستان میں بلوچ اور پشتون جبکہ سندھ میں متحدہ قومی مووومنٹ بھی اپنے صوبہ کا مطالبہ کرچکی ہے، گورنر سندھ عمران اسماعیل سندھ کی تقسیم کا بیان دے کر سندھیوں کو مشتعل کرچکے ہیں۔

پی پی جنوبی پنجاب صوبہ کی کس طرح حمایت کرے گی جبکہ وہ کراچی کو صوبہ بنانے کے مطالبہ پر برہم ہے۔اسی طرح ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے وزیر خارجہ کے بیان پر شدید رد عمل دیتے ہوئے کہ کہ شاہ صاحب ملتان کے عوام کو بیوقوف بنانا چھوڑ دیں،ادھر میڈیا تجزیہ کار بھی نئے صوبوں کی چھیڑی گئی بحث کو پوائنٹ اسکورنگ قراردے رہے ہیں ،جن ماہرین کی نگاہیں قومی اور صوبائی وسائل اور مسائل پر جمی ہوئی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کی تقسیم سے ریونیو ،پانی اور دیگر گراں بار مسائل سمیت صوبوں کی حدود کا جھگڑا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، پینڈروا باکس کسی کو کھولنا نہیں چاہئے، دنیا بھر میں نئے صوبوں کے قیام کا فیصلہ وہاں کے سیاستدان انتظامی بنیادوں پر کرتے ہیں، جبکہ ہمارا جاگیردارانہ سماج منافرت ، علاقائیت اور سیاسی مخاصمت کے صد ہزار بندھنوں میں جھکڑا ہوا ہے، وہاں نئے صوبوں کی بات کرتے ہوئے ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘ کے مصداق صبر و تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔