جدید سندھ کی معیشت کے بارے میں نئے حقائق

بابر ایاز  جمعـء 17 مئ 2019
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی علاقائی معیشتوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اور اگر کچھ موجود ہیں بھی تو وہ ادھوری اور نا مکمل ہیں جن پر انحصار کرنا مشکل ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی کتابThe Economy of Modren Sindh: Opportunities Lost and Lessons for the Future اس ضمن میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔

سندھ کی جدید معیشت کے بارے میں نئی معلومات کے ساتھ یہ کتاب تین مصنفین نے مشترکہ پر لکھی ہے جن میں ڈاکٹر عشرت حسین، سندھ یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم اعجاز قریشی اور محقق ندیم حسین شامل ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے سندھ کی معیشت پر پہلی کتاب اُس وقت تحریرکی تھی، جب وہ عالمی بینک کے ساتھ وابستہ ہونے سے قبل سندھ حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔

چونکہ اس کتاب کا ہدف محققین ہیں اور یہ ایک نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھی جائے گی، اس لیے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ پاکستان کے وفاق میں سندھ بھی انصاف کے لیے شور مچا رہا ہے۔ تاہم اس میں کسی سیاسی رنگ آمیزی کے بغیر انصاف کے لیے سندھ کا کیس پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ممتاز کالم  نگار قیصر بنگالی A Cry for Justice: Empirical Insights from Balochistan کے نام سے کتاب لکھ چکے ہیں۔

امداد دینے والی تمام ایجنسیاں اب ’’تعلیم ، صحت، آبپاشی، پانی کی سپلائی اور پبلک ٹرانسپورٹ جیسے مخصوص شعبوں میں مدد کے لیے علاقائی سطح پر صوبائی معیشتوں کا تجزیہ اور منصوبے تیار کر رہی ہیں۔ ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر کیا جانے والا تنقیدی کام ، جیسا کہ اس کتاب میں شامل ہے مدد گار ثابت ہوگا۔

مشترکہ مفادات کونسل جس میں وفاقی حکومت اور ہر تشکیلی یونٹ (صوبوں) کو مساوی نمائندگی حاصل ہے، صوبوں اور وفاق کے تعلقات کے حوالے سے سب سے اہم ادارہ ہے۔ اسے Federal Legislative List II میں شامل معاملات پر اختیار حاصل ہے۔

فیڈرل Legislative لسٹ کے مطابق،53 معاملات پر اختیار صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کو 18 موضوعات کے بارے میں اختیار دیا گیا ہے جو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹII میں شامل ہیں۔ یہ تبدیلی 18 ویں ترمیم کے بعد آئی جس کے ذریعے صوبوں کو مزید اختیارات ملے۔

اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے نتیجہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا کردار مستحکم ہوا۔ چھوٹے صوبے اس کونسل میں ہر بار یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ کونسل مناسب طریقے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ مضبوط مرکز کے حامیوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے کہ صوبے وفاق کو کمزور کرنے کے لیے مسائل اٹھا رہے ہیں۔یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ صوبائی یونٹوں کے مطمئن ہونے سے ہی مرکز مضبوط ہو سکتا ہے۔

اس کتاب میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تیل اور قدرتی گیس کے تنازع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ ’’آئین کے آرٹیکل 161 (1) کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے قدرتی گیس پر عائد کی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی سے حاصل ہونے والی خالص آمدنی فیڈرل کانسالیڈیٹڈ فنڈ کا حصہ نہیں ہو گی اور یہ ان صوبوں کو ملے گی جہاں سے یہ نکالی جا رہی ہے ۔ مزید برآں، تیل نکالنے کے عمل پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہو گا۔‘‘

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سندھ ،صوبے میں آئل اورگیس کمپنیوں کے تلاش کے لائسنس میں توسیع کے اپنے ’’خصوصی‘‘ استحقاق کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ وفاقی وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل سندھ کے اس موقف کی مخالف ہے۔ کتاب میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر چہ18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو غیر ملکی قرضوں تک رسائی کا اختیار حاصل ہے مگرECNEC اس بارے میں کوئی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

کتاب میں جس تیسرے مسئلہ کے بارے میں بات کی گئی ہے وہ 18 ویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم پر صوبوں کے اختیار کے باوجود سنٹرل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے پنجاب اور سندھ کے ہائر ایجوکیشن کمیشنز کو’’ غیر آئینی‘‘ قراردینا ہے۔

سندھ محسوس کرتا ہے کہ وہ صوبے کی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہے بشرطیکہ اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کا حق دیا جائے۔ سندھ اب ملک کو قدرتی گیس کا ایک بڑا سپلائر بن چکا ہے۔ 1980-81ء میں قومی پیداوار میں اس کا حصہ 14 فیصد سے کم تھا جو 2005-06ء میں 70 فیصد تک پہنچ گیا۔ 1980-81ء سے 2014-15ء کے دوران مقداری اضافہ حیران کن ہے۔

تاہم سندھ میں گیس صارفین کی تعداد اور تناسب بڑھتی ہوئی پیداواری سطح کے مطابق نہیں ہے۔ پچھلے35 سال کے دوران صارفین کی تعداد میں اضافہ قومی سطح پر 10.4 کے مقابلے میں 6.7 گنا رہا۔تاہم مصنفین نے سندھ میں پیداوار اور کھپت میں اس فرق کی نشاندہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت آرٹیکل158پر عمل چاہتی ہے، جو کہتا ہے کہ ’’ اُس صوبے کو، جس میں قدرتی گیس کا کنواں واقع ہے، اس کنوئیں سے پاکستان کے دوسرے حصوں کی ضروریات پوری کرنے پر فوقیت حاصل ہو گی بشرطیکہ شروع دن سے کوئی اور وعدے یا ذمہ داریاں نہ ہوں۔‘‘

اس کتاب میں پبلک فنانس کے حوالے سے بجا طور پر واضح کیا گیا ہے کہ ’’2009ء کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور18 ویں ترمیم سے پاکستان میں مالیاتی وفاقیت میں بنیادی اسٹرکچرل تبدیلی آئی ہے۔ اب صوبوں کو مجموعی divisible tax pool کا تقریباً60 فیصد ملتا ہے جو ان کی اخراجاتی استعداد میں ایک بڑا اضافہ ہے۔ حالانکہ divisible pool کی زیادہ ترتقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔‘‘ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سندھ کہتا ہے کہ 2017ء کی افراد شماری میں اس کی آبادی کو کم دکھایا گیا۔ سندھ کا یہ کیس بالکل جائز ہے کہ صوبے کی آبادی میں 2.6 فیصد کی شرح اضافہ میں جیسا کہ حالیہ افراد شماری میں ذکرکیا گیا ہے، دوسروں صوبوں سے مسلسل آنے والے لوگوں کو شمار نہیں کیا گیا ۔ اس لیے سندھ افراد شماری کے اعداد وشمار کی دوبارہ جمع تفریق اور تصدیق پر اصرارکرتا ہے۔سابق حکومت نے اس سے اتفاق کیا تھا اور اس بارے میں سندھ حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے کہ یہ کام انجام دیا جائے گا مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔

تاہم وسائل کی یہ منتقلی اور اختیارات کی عدم مرکزیت صوبائی سطح پر رک گئی اور مقامی حکومتوں تک نہ پہنچی جہاں حکومت اور شہریوں کے درمیان زیادہ تر ربط ضبط ہوتا ہے۔ درحقیقت اس کے برعکس ہوا ہے۔2001ء کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جانے والے سارے اختیارات ایک بار پھر صوبائی سطح پر یکجا کر دیے گئے ہیں اور بنیادی خدمات کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے مقامی ادارے نہیں رہے کیونکہ ان پر لوکل گورنمنٹ کے صوبائی محکمے نے قبضہ کر لیا ہے۔

مصنفین نے کتاب کے آخر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’سندھ پاکستان کا سب سے زیادہ شہری خصوصیات کا حامل اور تعلیم یافتہ لوگوں کا صوبہ ہے، جس کی فی کس آمدنی ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم ، وقت گزرنے کے ساتھ پنجاب نے اپنی معاشی صورت حال کو بہتر بنایا ہے اور وہ سندھ کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ سب سے زیادہ عدم مساوات کا شکار اور متنوع صوبہ ہے، کیونکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی فی کس آمدنی شہری علاقوں میں رہنے والوں کا نصف ہے۔

دیہی اضلاع  میں سماجی ترقی کے اعداد و شمار افسوس ناک حد تک نیچے ہیں جبکہ شہری علاقوں کے یہ اعداد و شمار سب سے اوپر ہیں ۔‘‘ ایم بی عباسی نے حکومت سندھ کے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے لیے پہلے جو مقالہ لکھا تھا اس میں بھی یہ تفریق موجود تھی ۔ یہ اعداد و شمار اس قدر چونکا دینے والے تھے کہ محکمہ نے اس رپورٹ کو چھپائے رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسے میڈیا کے ساتھ شیئرکرنے سے گریزکیا۔

اگر تیل اورگیس سے ملنے والی رائلٹی کا صرف 50فیصد بھی ان علاقوں کے بلدیاتی اداروں کو دے دیا جائے جہاں سے تیل اور گیس نکالی جا رہی ہے تو یہ اضلاع غریب نہیں رہیں گے۔بد قسمتی سے صوبے بھی مقامی حکومتوں کے حقوق غصب کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں اور صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پرکسی با مقصد بات چیت سے گریزاں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔