افغان امن عمل کو اشرف غنی ناکام بنا رہے ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 17 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دُنیا کا ہر معتبر تحقیقی ادارہ اور تھنک ٹینک دل و جان سے تسلیم کر رہا ہے کہ امریکا بہت بُری طرح افغانستان میں پِٹ چکا ہے۔ یہ تو افغان طالبان کی پُر اسرار سٹریٹجی ہے کہ اُنہوں نے باقاعدہ افغانستان میں اپنی فتح کا اعلان نہیں کیا ہے۔ افغان فوجیں اور افغان حکومت، ڈاکٹر اشرف غنی صاحب جس کے سربراہ ہیں، بھی افغان طالبان کے سامنے تقریباً سرنڈر کر چکی ہیں۔ مارے ندامت کے اور کچھ مالی مفادات کے سبب اس کا اعلان مگر ابھی باقی ہے۔

جناب اشرف غنی چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان کی صدارت کے کچھ دن مزید لطف اُٹھا لیں۔ ورنہ جن سنگین اور غیر یقینی حالات کا اُنہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کوئی بھی شریف شخص ایسے حالات میں کسی بھی ملک کے صدارتی تخت پر بیٹھنا قبول نہیں کر سکتا۔ بھارت بھی سازشیں کر کے اشرف غنی کو ڈٹے رہنے پر مجبور کر رہا ہے اور افغان انٹیلی جنس کے کچھ سینئر عناصر بھی۔ افغان طالبان کی خواہش ہے کہ کابل پر اپنا باقاعدہ پرچم لہرانے سے قبل پوری دُنیا اُن کا جائز استحقاق اور اُن کی منطقی بالا دستی تسلیم کر لے۔

وہ غالباً یہ بھی چاہتے ہیں کہ کابل میں اُن کی واپسی جمہوری عمل کا بھی حصہ ہو اور افغان عوام بھی راضی خوشی اُنہیں خوش آمدید کہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عالمی چھتری تلے جو افغان امن عمل جاری ہے، وہ بھی فطری اسلوب سے اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بھی یہ چاہتے ہیں کہ افغان امن عمل احسن انداز میں اپنی منزل کو پہنچے اور افغانستان کی باگ ڈور پھر سے عوام کے ہاتھوں میں آ جائے۔

افغانستان کی بدامنی اور خونریزی نے پاکستان کو منفی طور پر بہت بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اس لیے بھی پاکستان آگے بڑھ کر افغان امن عمل کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کامیابی کے لیے پاکستان نے اپنی استطاعت سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں امن اور جمہوری حکومت کو جلد ازجلد بروئے کار لانے کے لیے عمران خان نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی دے ڈالی تھی لیکن اشرف غنی صاحب نے اس کا بُرا منایا تو ہمارے وزیر اعظم نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن اس زمینی حقیقت سے بہرحال کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افغان امن عمل کو ہر صورت میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے پاکستان کی منتخب حکومت اور ملٹری لیڈر شپ ہم جہت بھی ہے اور ہمنوا بھی۔

افغانستان میں کامل امن عمل کے قیام کے حوالے سے اب تک امریکا اور افغان طالبان قیادت کے درمیان مذاکرات کے جتنے بھی راؤنڈ ہُوئے ہیں، اس میں فریقین کے درمیان یہ بات تقریباً طے پا چکی ہے کہ پہلے افغانستان سے امریکی فوجوں کا مکمل انخلا عمل میں آئے گا، پھر (افغان طالبان کی طرف سے) کوئی اور ( مثبت) قدم اُٹھایا جائے گا۔ افغان طالبان کی طرف سے بھی گارنٹی دی جا رہی ہے کہ کابل میں اُن کی کامل موجودگی کے دوران افغان سرزمین کسی بھی شکل میں کسی کے بھی خلاف بے جا طور پر استعمال ہو گی نہ کرنے دی جائے گی۔ یہ گارنٹی دینے اور لینے کے لیے رُوس اور دوحہ میں متعلقہ فریقین کے درمیان کئی مذاکرات ہو چکے ہیں۔

ڈائیلاگ میں شریک امریکیوں کی مگر یہ خواہش رہی ہے (اور اب بھی ہے) کہ افغان حکومت (NUG) کے نمائندگان کے ساتھ بھی افغان طالبان بیٹھ جائیں اور بات چیت کریں۔ امریکا اب تک طالبان سے اس امر کا اصرار کر رہا ہے لیکن امریکیوں کو افغان طالبان کا کل بھی وہی جواب تھا اور آج بھی وہی ہے۔ یعنی مکمل انکار۔ متحارب افغان طالبان کابل میں بیٹھی حکومت کو ناجائز اور غاصب بھی سمجھتے ہیں اور بالیقین بھی سمجھتے ہیں کہ اشرف غنی صاحب اور اُن کی ’’منتخب‘‘ حکومت کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے، یہ محض کٹھ پتلیوں کی طرح کسی کی انگلیوں پر رقصاں ہیں۔ ہم انہیں اپنی صفوں میں کیوں بٹھائیں؟ ان سے مکالمہ کیوں کریں؟؟

کیا یہ حیرت خیز بات نہیں ہے کہ افغان طالبان کی تو امریکیوں کے سامنے پہلی شرط ہی یہ ہے کہ پہلے افغانستان سے نکلیں اور صدرِ افغانستان جناب اشرف غنی ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو خط لکھ رہے کہ آپ افغانستان سے، پلیز، نہ نکلیں۔ سچ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کا مکمل انخلا اکثریتی افغان عوام کی تمنا بھی ہے لیکن اشرف غنی صاحب کی اداؤں کا کیا کیجئے کہ امریکی صدر کو چٹھیاں لکھ لکھ کر افغان عوام کی توہین کر رہے ہیں ۔ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ جب سے رُوس میں افغان طالبان کی موجودگی میں امن عمل کے حوالے سے ڈائیلاگ کا آغاز ہُوا ہے ، اشرف غنی صاحب نے ہمیشہ ہی اور تسلسل کے ساتھ ان مذاکرات کو بلڈوز اور سبوتاژ کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے۔

دوحہ (قطر) میں افغان مذاکرات اچانک منسوخ کیے جانے کے عقب میں بھی افغان حکومت اور اشرف غنی کی بدنیتی اور شرارت شامل ہے۔ پاکستان سے مذکورہ افغان امن عمل کے حوالے سے جتنا کچھ ہو سکتا تھا، اس نے کیا ہے لیکن جناب اشرف غنی بھارتی ایما اور شہ پر پاکستانی کوششوں کو ناکام بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسا کر کے دراصل موصوف پوری افغان عوام اور پورے ملک کی اہانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے اُنھوں نے افغان صدارتی انتخابات کو بھی موخر کر دیا ہے۔ دراصل بھارت کو بھی خدشات لاحق ہیں کہ اگر امن عمل کے نتیجے میں افغان طالبان کابل پر اپنا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں تو افغانستان میں بھارتی ’’سرمایہ کاری‘‘ بھی اکارت چلی گئی؛ چنانچہ یہ بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس میں امراللہ صالح ایسے شرارتی عناصر، جنہیں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد حاصل ہے، بھی اشرف غنی کے کان بھرتے رہتے ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ صدر اشرف غنی کانوں کے پکّے نہیں ہیں۔ خطے کے سبھی ممالک شدت سے افغان امن عمل کو بروئے کار آتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ افغان عوام کی بھی اجتماعی پکار ہے۔ وقت خاصا بدل چکا ہے؛ چنانچہ اس بدلے وقت کی لہر کے سامنے اشرف غنی کا دیوار بننا اُن کے لیے موزوں ہے نہ افغان سیاست و معیشت اور امن کے لیے مناسب!!

افغان امن عمل کو ناکام بنانے اور پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے بھارت نے دُور کی سوچ کر (ایران میں) چا بہار کی بندرگاہ بھی بنائی لیکن اُس کے عزائم پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان کسی سے بائی پاس بھی نہیں ہو سکا ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان نے جو اور جتنی کوششیں کیں، جس طرح امن سازی کی عالمی قوتوں کے لیے سہولت کار بنا ہے، ساری دُنیا نے اس کی شہادت دی ہے۔ یہ پاکستان ہے جس نے اپنے محدود ترین وسائل کے باوصف محض اپنے عزم سے شدت پسندی اور دہشتگردی کے عفریت کو شکست دی ہے۔

عالمی تجارت کے فروغ کے لیے پاکستان جرأت کے ساتھ ’’سی پیک‘‘ کا حصہ بھی بنا ہے اور اس کی جی جان سے حفاظت بھی کر رہا ہے۔ اگر ’’کوئی‘‘ وسط ایشیا تک اپنا تجارتی مال پہنچانے کا خواہاں ہے تو وہ جانتا ہے کہ یہ مختصر، سستا اور سہل راستہ پاکستان میں سے گزرتا ہے۔ پاکستان کو تنگ کر کے، سی پیک کو نقصان پہنچا کر اور افغان امن عمل سے دشمنی کر کے ’’کوئی‘‘ اپنے تجارتی مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا؛ چنانچہ بھارت پر بھی لازم ہے کہ وہ مفسدانہ اور معاندانہ سوچوں سے باہر نکلے، مثبت رویہ اپنائے اور چینی اسلوب کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ اب تو دُنیا بھی گواہیاں دینے لگی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر پاکستان کو جھکا نہیں سکتے۔ شائد اِسی لیے عالمی شہرت یافتہ جریدے ’’ٹائم‘‘ نے بھی اپنے سرِ ورق پر نریندر مودی کی فوٹو شائع کر کے لکھ دیا ہے کہ مودی جی بھارت کے DIVIDER IN CHIEF ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان کے خلاف جھوٹ بول بول کر پورے بھارت کو تقسیم کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔