- شیخ رشید کی راولپنڈی میں آبائی رہائشگاہ لال حویلی کو سیل کر دیا گیا
- پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں، ٹرانسپورٹ کرایوں میں 10 فیصد اضافہ
- زمین سے 1450 نوری سال دور ویری ایبل ستاروں کی تصویر عکس بند
- کم وقت میں زیادہ سویٹر پہننے کا گینیز ورلڈ ریکارڈ
- فوری طور پر خون روکنے والی پٹی
- پی ٹی آئی کے مقامی رہنما قاتلانہ حملے میں جاں بحق
- بلاول بھٹو زرداری دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو پہنچ گئے
- کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز کی فائرنگ سے اے ایس آئی جاں بحق
- ایلون مسک سے’خودکارگاڑیوں‘ کے دعوے پر تفتیش شروع
- کراچی کے ترقیاتی فنڈز میں بندر بانٹ، ٹھیکدار کو کام شروع بغیر ہی 10 کروڑ روپے کی ادائیگی
- ملک میں بجلی بریک ڈاؤن میں سائبر اٹیک کا خدشہ موجود ہے، وزیر توانائی
- قومی اسمبلی کے 33 حلقوں سے عمران خان ہی الیکشن لڑیں گے، تحریک انصاف
- اسلامیہ کالج کا سامان پرانے کمپلیکس میں سیل؛ طلبہ و عملہ زمین پر بیٹھنے پر مجبور
- مریم نواز کی واپسی پر اسحاق ڈار نے قوم کو پٹرول بم کی سلامی دی، پرویز الہیٰ
- معاشی بحران حل کرنے کیلیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، وزیر خزانہ
- چوتھی کمشنر کراچی میراتھن میں جاپانی ایتھلیٹ فاتح قرار
- صدرمملکت کا ایف بی آر کو برطانوی دور کی لائبریری کو ٹیکس کٹوتی واپس کرنے کا حکم
- جرمنی نے بیلجیئم کو شکست دے کر عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ جیت لیا
- ایف آئی اے کراچی کی حوالہ ہنڈی کیخلاف کارروائی؛ 4 ملزمان کو گرفتار
- کراچی میں یکم فروری تک سردی کی لہر برقرار رہنے کا امکان
ورلڈکپ کا سفر، 1975 میں فاتح کا تاج ویسٹ انڈیز کے سرپر سجا

فائنل میں آسٹریلیا کو شکست ہوئی،پاکستان کا سفر پہلے راؤنڈ تک محدود رہا، میاندادکا18سال کی عمر میں انٹرنیشنل ڈیبیو۔ فوٹو: سوشل میڈیا
کراچی: ون ڈے کرکٹ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے 1972 میں آئی سی سی نے ورلڈکپ کے انعقاد کی تجویز پر غور شروع کیا، اسے برطانیہ کی پروڈنشل انشورنس کمپنی کی جانب سے ایک لاکھ پاؤنڈ اسپانسر شپ کی آفر بھی مل گئی، یوں راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہی۔
1975 میں پہلی بار میگا ایونٹ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس سے قبل دنیا بھر میں 18 ون ڈے انٹرنیشنل میچز ہو چکے تھے۔ پہلے ورلڈکپ میں 6 ٹیسٹ ٹیموں انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، بھارت اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ نئی ٹیم سری لنکا جبکہ افریقہ کی نمائندگی کیلیے ایسٹ افریقہ کو لیا گیا، جنوبی افریقی ٹیم پر اس وقت نسلی امتیاز کے سبب پابندی عائد تھی، شریک سائیڈز کو2گروپس میں تقسیم کیا گیا۔
پہلا میچ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر میزبان انگلینڈ اور بھارت کے درمیان ہوا، مہمان کھلاڑیوں کو اس طرز کی کرکٹ کا کوئی تجربہ نہ تھا اس وجہ سے انگلینڈ نے چار وکٹ پر334 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا، ڈینس ایمس نے سنچری بنائی، بھارتی بیٹسمینوں نے اس کے بعد جو کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا، سنیل گاوسکر نے اننگز اوپن کی اور پورے 60 اوورز تک وکٹ پر قیام کے بعد36 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ پویلین واپس گئے، ٹیم نے 3 وکٹ پر 132 رنز اسکور کیے۔
سست بیٹنگ کے اس مظاہرے کے بعد ورلڈکپ کا تجربہ ناکام ہوتا نظر آ رہا تھا تاہم پاکستان اور ویسٹ انڈیز میں سنسنی خیز میچ نے ایونٹ کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دے دیا، پاکستانی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مشتاق محمد اور وسیم راجہ کی نصف سنچریاں کی بدولت7 وکٹ پر266 رنز بنائے، جواب میں حریف سائیڈ جب203 کے ہندسے تک پہنچنے پر 9 وکٹیں گنوا بیٹھی تو پاکستانی فتح یقینی دکھائی دینے لگی تاہم قسمت کو یہ منظور نہ تھا، ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹس نے آخری وکٹ کیلیے64 رنز کی شراکت بناکر ویسٹ انڈیز کو ناقابل یقین فتح دلا دی۔
پاکستان ٹیم اس سے قبل اپنے افتتاحی میچ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں73 رنز کی شکست کا شکار ہوئی تھی، آخری میچ میں اس نے سری لنکا کو192 رنز کے بڑے مارجن سے مات دی۔ ایونٹ کے پہلے سیمی فائنل میں کینگروز نے انگلینڈ کو4 وکٹ سے ہرایا، میزبان ٹیم کی اننگز صرف 93 رنز تک محدود رہی، اس تباہی کے ذمے دار گیری گلمور تھے جنھوں نے صرف 14 رنز کے بدلے 6 بیٹسمینوں کو ٹھکانے لگایا۔
دوسرے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو5 وکٹ سے شکست دینے والی ویسٹ انڈین ٹیم کیلیے فائنل اتنا آسان ثابت نہ ہوا، کلائیو لائیڈ کی سنچری سے تقویت پاتے ہوئے اس نے 8 وکٹ پر 291 رنز بنائے، گلمور نے اس بار بھی پانچ وکٹیں لیں، آسٹریلوی ٹیم نے آسانی سے ہار نہ مانی تاہم 2 گیندوں قبل اس کی مزاحمت 274 رنز پر دم توڑ گئی، یوں فاتح کا تاج ویسٹ انڈیز کے سر پر سج گیا۔ پہلے ورلڈکپ کے15 میچز کو ڈیڑھ لاکھ سے زائد شائقین نے دیکھا اور منتظمین کو تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار پاؤنڈ کی آمدنی ہوئی۔
ایونٹ کے دوران پاکستان کے جاوید میانداد نے 18 سال کی عمر میں انٹرنیشنل ڈیبیو کیا، پہلے ورلڈ کپ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 209 رنز ماجد خان نے بنائے جبکہ عمران خان، نصیر ملک اور سرفراز نواز نے 5،5وکٹیں حاصل کیں۔ سب سے کامیاب بیٹسمین نیوزی لینڈ کے گلین ٹرنر ثابت ہوئے جنھوں نے چار میچوں میں 333 رنز اسکور کیے، بولرز میں آسٹریلیا کے گیری گلمور نے11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔