مارگلہ ہلز پر افطاری... مگر صفائی بھی تو نصف ایمان ہے

ڈاکٹر واصف اعجاز  اتوار 19 مئ 2019
مارگلہ ہلز پر افطاری کے بعد لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھ رہے۔ (فوٹو: فائل)

مارگلہ ہلز پر افطاری کے بعد لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھ رہے۔ (فوٹو: فائل)

رمضان المبارک کے آغاز کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں گردش کررہی تھیں، جس میں اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز پر افطاری کا اہتمام ہوتا ہے اور لوگ فخر سے ایک دوسرے کو بتارہے تھے کہ ہم اس پُرفضا اور نظاروں سے بھرپور جگہ پر افطاری کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ مجھ سمیت کافی لوگ اس عمل سے متاثر ہوئے اور یہ طریقہ ایک بھیڑ چال میں بدل گیا۔ لیکن چند ہی دن بعد اب اس کے اثرات واضح ہونے لگے۔ بعد میں جانے والے لوگوں نے کچھ تصویریں بناکر سوشل میڈیا پر دیں کہ کیسے لوگ افطاری کے بعد بچ جانے والا سامان، پھلوں کے چھلکے، شاپر اور کاغذ وہاں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے اس جگہ کی خوبصورتی کو گرہن لگ رہا ہے۔

یہ سب دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی اور میں اس سوچ میں مبتلا ہوگیا کہ آخر ہم من حیث القوم ایسے کیوں ہیں؟ ہمارے اندر ایسی کون سی اناپسندی ہے جو ہمیں درست کام کرنے سے بھی روک دیتی ہے اور ہم کبھی کبھار عقل و شعور سے اس قدر بیگانہ کیوں ہوجاتے ہیں کہ اپنے ہی اردگرد گندگی کے انبار لگالیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے، بیماریاں ہمارا نصیب بنتی ہیں اور اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ 2018 میں فٹ بال کا عالمی میلہ روس میں منعقد ہوا، جس کے ایک انتہائی اہم مقابلے میں بیلجیئم کی ٹیم نے اعصاب شکن مقابلے کے بعد جاپان کو شکست دی۔ فطرتی طور پر ہوسکتا تھا کہ جاپانی کھلاڑی دل شکستہ اور مایوس ہوکر اپنی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتے اور واپسی کا رخ کرتے۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے وہ کام کیا جس سے جاپانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا اور جو انہوں نے عالمی سطح پر عزت کمائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جاپان کے کھلاڑی اپنے ڈریسنگ روم میں گئے، اُس کی اچھی طرح سے صفائی کی اور اس کے بعد وہاں ایک رقعہ چھوڑا جس پر جاپانی زبان میں لکھا ہوا تھا ’’شکریہ‘‘۔

پس واضح ہوا کہ قومیت صرف معیشت سے پروان نہیں چڑھتی، بلکہ اس کےلیے صفائی پسندی جیسی عادات بھی ضروری ہیں۔

زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں جب پاکستان میں تعینات جرمن سفیر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ اسلام آباد کے ہی ایک رہائشی علاقے میں پڑے کوڑے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ ان کا یہ طنز ہم پر طمانچہ تھا۔ کیا ہم اس طرح کے واقعات سے بھی کچھ نہیں سیکھتے؟

ایک جاپانی لکھاری ماری کونڈا (Marie Konda) کا کہنا ہے کہ ’’صفائی کا مقصد صرف صفائی نہیں، بلکہ اس خوشی کو محسوس کرنا بھی ہے کہ ہم صاف ستھرے ماحول میں رہ رہے ہیں۔‘‘ تو کیا ہم ایسی خوشی سے آشنا ہیں؟ جب کہ ہمیں ہمارا عظیم مذہب بھی صفائی کے نصف ایمان ہونے کا درس دیتا ہے۔

خدارا! اپنے اندر موجود کسی بھی اناپسندی یا کاہلی کو پس پشت ڈال کر اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرارکھیں۔ مارگلہ پہاڑی ہو یا کوئی بھی سیاحتی مقام، آ پ خوبصورتی کے قدرتی وسائل کو تباہ مت کیجئے۔ دوران سفر روڈ کو بھی آلودہ نہ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

ڈاکٹر واصف اعجاز

ڈاکٹر واصف اعجاز

بلاگر شعبہ صحت سے وابستہ ہیں اور لکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ بلاگر سے فیس بک آئی ڈی Wasif Ijazاور بذریعہ ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔