کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 19 مئ 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


میں اس کو چھوڑ رہا ہوں یہ کام ٹھیک نہیں
معاف کرنے کے بعد انتقام ٹھیک نہیں
مرے قریب نہ آ مجھ سے استفادہ کر
دیے سے اتنی دعا و سلام ٹھیک نہیں
ہوس میں عشق ملانا گنہ سمجھتا ہوں
فروخت دودھ ہو پانی کے دام ٹھیک نہیں
ہم اپنے فون کو چومیں گے کب تلک آخر
خیال و خواب کی حد تک کلام ٹھیک نہیں
گزر رہا ہوں تو روکو نہ راستہ میرا
کھلی سڑک پہ ٹریفک ہو جام ٹھیک نہیں
نہ کارِ عشق نہ کارِ جہاں نہ کارِ ثواب
یہاں ہمارے لیے کوئی کام ٹھیک نہیں
میں آفتاب مسلسل ہی جل رہا ہوں دیکھ
نہ میرے نام پہ رکھنا، یہ نام ٹھیک نہیں
ترے مکان کا ملبہ اٹھا نہ لیں عارضؔ
گلی میں لوگوں کا یہ اژدہام ٹھیک نہیں
(آفتاب عارض۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


جب پرندوں کے پَر نکلتے ہیں
ان کے سینوں سے ڈر نکلتے ہیں
کاٹ دیتے ہیں کاٹنے والے
جونہی شاخوں سے سَر نکلتے ہیں
میری آہ و فغاں مرے نالے
ہو کے اشکوں سے تَر نکلتے ہیں
ایک تاریک دشت کی جانب
کچھ مکانوں کے در نکلتے ہیں
پھر کہیں کے بھی ہم نہیں رہتے
تیرے کوچے سے گر نکلتے ہیں
اس زمیں کو نہ روند کر گزرو
اس زمیں سے گہر نکلتے ہیں
(صدام فدا۔ واہ کینٹ)

۔۔۔
غزل


ایک سے ایک حویلی کا بڑا دروازہ
ایک کھلتا تو نظر آتا نیا دروازہ
جانے کیونکر نہیں جاتی ہے صدا اس جانب
بند کرتا بھی نہیں میرا خدا دروازہ
کھل گئی آنکھ حسیں خواب مکمل نہ ہوا
رات اس زور سے آندھی میں بجا دروازہ
ہم ہی محبوس رہے فکر کے زندانوں میں
ہر نئی سوچ کا خود بند کیا دروازہ
کس نئی بحث میں احباب الجھ بیٹھے ہیں
پہلے دیوار بنی یا کہ بنا دروازہ
جو بھی اترا ترے آنگن میں، کہیں جا نہ سکا
میں تو میں بھول گئی موجِ صبا دروازہ
ہم نے دشمن کے ارادوں کو پسِ پشت رکھا
حبس اتنا تھاکہ بس کھول دیا دروازہ
عمر بھر جیسے مرے ساتھ رہیںدیواریں
دائم ایسے ہی تو ہمراہ چلا دروازہ
بس اسی بات پہ ٹھہرائے گئے ہیں باغی
چار دیواری میں کیوں ڈھونڈا گیا دروازہ
اسی کمرے میں مقید ہوں ابھی تک جاذبؔ
جہاں بچپن پہ جوانی کا کھلا دروازہ
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


سب اندھیروں کو مٹا دینے کی راہیں نکلیں
اک دیا میں نے جلایا کئی شمعیں نکلیں
بد قماش اب نہیں رہ سکتے بدل کر بہروپ
باہر اب عرصۂ ظلمات سے نسلیں نکلیں
سوچتے سوچتے اک شخص نمودار ہوا
دیکھتے دیکھتے دیوار سے آنکھیں نکلیں
زندگی سر بہ کفن پھرتی ہے گلیوں گلیوں
قبروں سے لوگ کہ لوگوں سے یہ قبریں نکلیں
علم والوں نے تو بے علموں کو الجھا ہی دیا
ایک اک نکتے سے سو طرح کی شرحیں نکلیں
بچ گئے سارے مکیں زندہ سلامت فرخ ؔ
گھر کے ملبے سے مگر خوابوں کی لاشیں نکلیں
(سید فرخ علی جواد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


شکست خوردگی کے بعد حوصلہ نہیں ہوا
جو چوکا پہلا وار ہی تو دوسرا نہیں ہوا
کہا ہوا، سنا ہوا، لکھا ہوا نہیں ہوا
ہمارے حق میں تو کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا
قدم ثقیل ہوگئے طویل راہ ہو گئی
ملال تھا کمال پر وصال تھا! نہیں ہوا
تمام دل کے پارچے بکھر چکے زمین پر
حساب رکھنے والے کا محاسبہ نہیں ہوا
پلٹ گئے تماش بیں، گئی وہ شعبدہ گری
تھی گنگ وہ زبان جب کہا ہوا نہیں ہوا
ہوئی بلند اک صدا کہ اب کرو وہ ’’دوسرا‘‘
نگاہ ناز یافتہ وہ ’’دوسرا‘‘ نہیں ہوا
تمہارے نقش پا پہ میں جو چل رہا ہوں دیر سے
میں ختم ہو رہا تو ہوں پہ راستہ نہیں ہوا
(ابو لویزا علی۔کراچی)

۔۔۔
’’وحشت‘‘


شام بیٹھی ہوئی ہے حجرے میں
رات کہتی ہے کچھ اجالے دو
اور سویرے کا سرد چہرہ ہے
عکس ڈھلتا ہے زرد سورج کا
اک گھنے پیڑ میں نکلتا دن
چھپ رہا ہے سیاہ آنکھوں میں
دور تک روشنی کا نام نہیں
اور وہ دیکھو کہ ایک پگلی نے
طاق میں پھر دیا جلایا ہے
چاند کہتا ہے جھیل میں اترو
اک ذرا دیر ہمنشیں ٹھہرو
مجھ سے باتیں کرو کہ وحشت نے
شہر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں
شب کو ڈھلنے سے روک رکھا ہے
دن نکلنے سے روک رکھا ہے
(سارا خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


پہلے تو درد کا احساس دلایا جائے
پھر کہیں جا کے نیا زخم لگایا جائے
جس کے فن پر مجھے لکھنے کا ابھی حکم ملا
اس کے بارے مجھے تھوڑا سا بتایا جائے
میں تو مدت سے مقید ہوں نہاں خانے میں
حاکمِ وقت مجھے شہر پھرایا جائے
اب تو یہ چاند ترے حسن پہ اترانے لگا ہے
رخ پہ زلفوں کو مری جان گرایا جائے
اپنے سینے میں جو رکھتاہے ارے سنگ اسے
اشک پانی میں ملا کر ہی پلایا جائے
اس سے پہلے کہ وہ نوخیرکہیں عشق کرے
اس کو پڑھ کر مرا انجام سنایا جائے
تیرگی ختم کر ے اور ضیا دان کرے
دیپ ایسا بھی زمانے میں جلا یا جائے
آدھا دامن تو دریدہ ہے مسافر کا سحرؔ
تیر اب اور نہ اس سمت چلایا جائے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال )

۔۔۔
’’پچھتاوا‘‘


کسی کو چاہتا تھا میں
محبت بانٹتا تھا میں
مجھے بھی چاہتی تھی وہ
محبت بانٹتی تھی وہ
دعا سجدوں میں کرتی تھی
بہت وہ مجھ پہ مرتی تھی
مگر دنیا سے ڈرتی تھی
کہیں چھپ چھپ کے روتی تھی
اسے تھی فکر دنیا کی
مجھے بھی فکر اس کی تھی
اسے ماں باپ رکھنے تھے
بڑے ہی نیک سپنے تھے
اسے معلوم تھا سارا
نہیں مانے گا گھر اس کا
مگر وہ پھر بھی کر بیٹھی
محبت دل میں بھر بیٹھی
بہت غمگین رہتی ہے
سسکتی ہے تڑپتی ہے
تڑپ کے یہ ہی کہتی ہے
محبت کی ہی کیوں میں نے
میں نے دیکھے ہی کیوں سپنے
بزرگوں کی انا رکھ لی
محبت ختم کر ڈالی
بنا سوچے بنا سمجھے
بنا پرکھے بنا دیکھے
کہانی موڑ دی اس نے
محبت چھوڑ دی اس نے
کسی کی ہو گئی ہے وہ
عجب سی ہو گئی ہے وہ
بہت افسردہ رہتی ہے
یہی اک بات کہتی ہے
خسارہ کر لیا میں نے
خدا کیا کر لیا میں نے
جسے دن رات چاہا تھا
جسے اپنا پنایا تھا
اسی کو چھوڑ بیٹھی ہوں
میں خود کو توڑ بیٹھی ہوں
(سلمان منیر خاور۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


رقیبوں کے دل کو جلاؤ تو جانیں
ہمیں اپنا کہہ کر بلاؤ تو جانیں
نگاہیں ملا کر نگاہوں سے جاناں
شرابِ محبت پلاؤ تو جانیں
بنے پھر رہے ہو طبیبِ زمانہ
مرا روگِ دل بھی مٹاؤ تو جانیں
ملیں گے زمانے میں یوں تو ہزاروں
جو ہم سا کہیں ڈھونڈ پاؤ تو جانیں
مٹا کر دلوں سے یہ نفرت اسد تم
محبت کا نغمہ سناؤ تو جانیں
(زین اسد ساغر۔ شیخوپورہ)

۔۔۔
غزل


سکوں کو چھوڑ کے غم بے حساب لاتا ہوں
سہانے خواب بھی سارے خراب لاتا ہوں
جو تم نے توڑے پرانے تھے سارے کے سارے
ذرا رکو، نیا کوئی میں خواب لاتا ہوں
مکان نہر کنارے تمہیں مبارک ہو
میں کم سہی، مگر آپ اپنا آب لاتا ہوں
وہ بولے مجھ سے محبت گناہ تھی، سو میں
انہیں لٹانے کو، اپنے ثواب لاتا ہوں
کہانی مجھ کو سناؤ نہ اور لوگوں کی
میں اپنے واسطے اپنی کتاب لاتا ہوں
تمہارے ہر گِلے کا، ہر سوال کا سالِم
تُو میرے دل سے گر اترے جواب لاتا ہوں
(سالِم احسان۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


راہ پر دید رہی دید ہٹائی بھی نہیں
چاند دیکھا جو نہیں عید منائی بھی نہیں
کوئی پازیب نہ گجرا نہ کوئی ہار سنگھار
دیکھ لے آ کے میرے ہاتھ حنائی بھی نہیں
جو تیرے ساتھ خوشی عید سے بڑھ کر تھی مجھے
لوٹ کر پھر وہ خوشی ہاتھ میں آئی بھی نہیں
تم نے دیکھے ہیں میری آنکھ کے آنسو جاناں
دل کی دھڑکن تو ابھی تم کو سنائی بھی نہیں
جس کی آنکھوں میں کسی اور کا چہرہ تھا نویدؔ
آنکھ اس شخص سے پھر ہم نے ملائی بھی نہیں
(نوید انجم۔ احمد پور سیال، ضلع جھنگ)

۔۔۔
غزل
شش جہت شمس فروزاں سے نہ باہر نکلی
روشنی اس کے گریباں سے نہ باہر نکلی
ساز آواز کی وحشت سے لپٹ کر رویا
خامشی دل کے بیاباں سے نہ باہر نکلی
جب بھی ہونٹوں پہ مرے آئی محبت کی صدا
روح کی خوئے گریزاں سے، نہ باہر نکلی
عرصۂ ہجر میں رونے کے لیے ایک بھی آنکھ
بستیِ چشم فروشاں سے نہ باہر نکلی
نظم کو درد کے رستے میں نکلنا پڑا ہے
جب غزل جشن بہاراں سے نہ باہر نکلی
منصب قیس وراثت میں نہیں مل سکتا
لیلیٔ ہجر مزاراں سے نہ باہر نکلی
(عاجزکمال، جوہر آباد۔ خوشاب)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

[email protected]

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔