امریکا ایران جوہری معاہدے کا نیا موڑ بڑھتی ہوئی کشیدگی کیا رنگ لائے گی؟

ثمرین زہرہ زیدی  اتوار 19 مئ 2019
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر پہلے ہی امریکا اور یورپ کے مابین کشیدگی بڑھ چکی ہے۔فوٹو: فائل

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر پہلے ہی امریکا اور یورپ کے مابین کشیدگی بڑھ چکی ہے۔فوٹو: فائل

2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ ہوا، 23 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات میں ایرانی مذاکرات کار، ماہر اقتصادیات اور جوہری توانائی کے ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی۔

معاہدے کے تحت ایران پر عائد تیل، تجارت اور بینکاری کے شعبے میں عائد پابندیوں کا اٹھالیا گیا، اور ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا اعلان کیا، ایران نے اس کے جواب میں  افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں کمی کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی تنصیبات تک رسائی دینے پر اتفاق کیا جس سے ایران کی تجارت بحال ہوئی، تیل کی فروخت  شروع ہوئی اور بینکاری شعبے میں عائد اضافی سود کو کم کردیا گیا، ایرانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے، اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے خلیجی ممالک کو یقین دلایا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے خلیجی ممالک کوخطرہ نہیں ہوگا، جس کے بعد یہ معاہدہ کام یابی سے چلتا رہا۔

عالمی جوہری معاہدے سے متعلق معاملہ بارک اوباما کے بعد امریکا کے صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت پر براجمان ہونے کے بعد شروع ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی جوہری معاہدے پر اعتراضی بیانات داغنا شروع کردیے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جوہری معاہدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی صدر ٹرمپ  نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ‘شرمندگی’ قراردیا، جس کے جواب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے صدر ٹرمپ کو ‘عالمی سیاست میں نیا سرکش’ قرار دیا۔

جنوری 2017ء میں ایران نے بیلسٹک میزائل تجربہ کیا، جس پر امریکا کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ بیلسٹک میزائل تجربے کے بعد امریکا نے ایران پر پابندیاں عائد کردیں اور جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی۔ اور کہا میزائل پروگرام کے ذریعے ایران جوہری ہتھیار لے جانے کی معلومات حاصل کر رہا ہے تاکہ جوہری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ اس پر عمل کر سکے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ایران کو حق ہے کہ وہ دفاعی مقاصد کے لیے میزائل پروگرام کو فروغ دے۔ ایران کا کہنا تھا کہ میزائل پروگرام عالمی جوہری معاہدے  میں  شامل نہیں ہے۔

معاہدے میں شامل دیگر ممالک کے مطابق ایران معاہدے کی شرائط پر پورا اتر رہا تھا اور عالمی جوہری ادارہ آئی اے ای اے بھی ایسا ہی سمجھتا تھا۔ حتٰی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ارکان کا بھی یہی خیال تھا۔ خاص طور پر نئے وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ڈین کوٹس بھی اس سے متفق تھے۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مطابق جوہری معاہدے میں ایرانی میزائل پروگرام اور خطے میں اس کے کردار سے متعلق شرائط شامل نہیں تھیں  جو اسے حقیقی طور پر مکمل کرتیں۔ لہٰذا دھمکیوں کے بعد بالآخر ڈونلڈٹرمپ نے 8مئی 2018 کو جوہری معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کا اعلان کردیا۔

جس کے بعد دیگر فریقین کی جانب سے امریکی فیصلے کی مذمت کی گئی۔ معاہدے علیحدگی کے اعلان کے دو ماہ بعد امریکی صدرٹرمپ نے  ایرانی صدر کو ملاقات کی بھی پیش کش کی اور کہا کہ یہ ملاقات ‘جب وہ چاہیں ہو سکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ملاقاتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ایران نے امریکی صدر کی ملاقات کی پیشکش مسترد کردی، اور کہا کہ دھمکیاں اور پبلسٹی سٹنٹ نہیں چلیں گے۔ جوہری معاہدے میں واپسی’ اور ‘ایرانی حق خود ارادیت’ کو تسلیم کرنے کے بعد ہی ملاقات کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

امریکا نے معاہدے سے علیحدگی کے بعد اگست 2018 سے پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اعلان کیا، ان  میں ایران کے مختلف شعبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پابندیوں کے مطابق ایرانی حکومت امریکی ڈالر نہ خرید سکتی ہے اور نہ حاصل کر سکتی ہے، سونے اور قیمتی جواہرات میں تجارت پر پابندی، صنعتی پیداوار میں گریفائٹ، المونیم، اسٹیل، کوئلہ اور سافٹ ویئر کا استعمال نہیں کر سکتی ہے۔ ایرانی ریال میں لین دین کے معاملے پر پابندی، آٹوموٹو سیکٹر پر پابندی شامل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس کے ساتھ کاروباری روابط رکھنے والے ممالک کے لیے سخت تنبیہ بھی جاری کی اور کہا کہ ایران سے تیل خریدنے والے ممالک  امریکا سے تجارت نہیں کر سکیں گے۔ ایران نے ردعمل میں کہا کہ  امریکا دنیا کو زور زبردستی کر کے  تہران کو تیل کی برآمد سے نہیں روک سکتا۔

ایران نے امریکی پابندیوں کی خلاف عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹا ڈالا، جس میں اسے کام یابی حاصل ہوئی۔ رواں برس اپریل میں  امریکا نے ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ایران کے دستے ’پاسداران انقلاب‘ عالمی سطح پر اس کی دہشت گردی کی مہم پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ فیصلے کا مقصد ایران پر دباؤ بڑھانا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ ایک ایسا اعلان  تھا جس کی مثال نہیں ملتی، امریکی صدرکے اس فیصلے کی کچھ امریکی حکام نے مخالفت بھی کی۔ یہ پہلا موقع  تھا جب امریکا نے کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد تنظیم کہا۔ امریکا نے ایران کے خلاف پابندیوں پر یورپی یونین کے اعلٰی سطح کے راہ نماؤں کی جانب سے یورپی کمپنیوں کو استثنا دیے جانے کی اپیل کو مسترد کر دی اور کہا کہ استثنا اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے جب ان سے امریکی قومی سلامتی کو فائدہ پہنچے۔

اب امریکا کے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے ٹھیک ایک سال بعد 8 مئی 2019 کو ایران نے امریکی اقدامات کے جواب میں جوہری معاہدے کی کچھ شقوں سے دست برداری کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ ایرانی حکومتی فیصلے کے مطابق افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بڑھانے پر عائد پابندی کو ختم کردیا جائے گا۔ بھاری پانی کا بھی ذخیرہ بڑھایا جائے گا اور یہ فیصلہ 60دن کے  لیے ہے اگر معاہدے کے دیگر فریقین دو ماہ میں امریکا کی جانب سے تیل اور بینکاری شعبے میں عائد پابندیوں کے خلاف عملی اقدامات میں ناکام رہے تو ایران یورینیم افزودگی دوبارہ شروع کرنے میں آزاد ہوگا۔

ایران نے یہ بھی واضح کیا  کہ وہ جوہری ڈیل کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلے گی اور اس کی بنیادی شرائط احترام جاری رکھا جائے گا۔

امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدے سے جزوی دست برداری کا فیصلہ جان بوجھ کر مبہم رکھا ہے، ایران کے اقدام جوہری بلیک میلنگ کے مترادف ہیں۔ امریکا نے ایک جنگی بحری بیڑا بھی  خلیجِ فارس میں بھیج دیا ہے۔ امریکا کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ قدم ایران کی جانب سے ‘متعدد دھمکیوں اور اکسانے والے بیانات’ کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔

ایران کی حمایت میں دیگر پانچ ممالک برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے ایران نے جوہری معاہدے کی پاسداری کی ہے۔ عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی نے بھی بارہا  رپورٹ کیا کہ ایران  جوہری معاہدے کی پاسداری کررہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں بھی فیصلہ ایرانی حق میں آیا۔ تاہم امریکا اپنے موقف پر قائم ہے، اور ایران کے خلاف اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا  ہوا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر پہلے ہی امریکا اور یورپ کے مابین کشیدگی بڑھ چکی ہے۔

یورپی ممالک ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے خلاف اقدامات کا وعدہ وفا کرپاتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس صرف دو ماہ ہیں، اگر ایسا نہ ہوا تو ایران جوہری معاہدے سے دست برداری کا اعلان کرسکتا ہے۔ ادھر امریکا نے بھی ایران کو فوجی وارننگ دے رکھی ہے اس کا مقصد خطے کے ممالک کے ساتھ امریکی مفادات ہیں، جن کے تحفظ کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مطالبہ ہے ایرانی پالیسی تبدیل کی جائے، ورنہ ایران کے اقتدار میں تبدیلی  بھی کرائی جا سکتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان یہ تنازعہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔