معاشی مسیحا آزمائش میں

ایڈیٹوریل  ہفتہ 18 مئ 2019

مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ معاشی بحران موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا ، پی ٹی آئی حکومت نے معاشی توازن لانے کی سر توڑ کوشش کی تاہم معیشت سابقہ حکومت کے ادوار میں لیے گئے اربوں کھربوں کے قرضوں کی تاب نہ لاسکی، آئی ایم ایف معاہدے سے دنیا کو پیغام جائے گا کہ معیشت اور ٹیکس نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے تیار ہیں۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے۔ بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔

جمعرات کو وہ گورنر ہاؤس سندھ میں تاجر برادری ، اسٹاک ایکس چینج سرمایہ کاروں، صنعتی انجمنوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور گورنر سندھ کے ہمراہ پریس بریفنگ سے خطاب کررہے تھے۔

حکومت کے معاشی ناخدا اگرچہ مسلسل اس بات  کا عوام کو یقین دلارہے ہیں کہ پاکستانی معیشت بحالی اور استحکام کے عمل سے گزر رہی ہے مگر اپنے مرکز سے اکھڑی ہوئی معاشی صورتحال سخت آزمائش میں ہے، نئے مشیر خزانہ کی آمد کے بعد ہی ڈالر 149 روپے 50 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، سونا 6ہفتوں کی بلند ترین سطح 71700پر پہنچا ہے۔

مارکیٹ سے ڈالر سرے سے غائب ہے، ایک عجیب افراتفری اور بے یقینی ہے، مشیر خزانہ نے ڈالر کی غیر معمولی اڑان کے تناظر میں اسٹیٹ بینک کو روپے کے استحکام کا ذمے دار قراردیا ہے ،جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا مرکزی بینک کوئی غیر ملکی مالیاتی ادارہ ہے جب کہ اسٹیٹ بینک ریاستی ادارہ ہے اور اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر باقر رضا اور ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کی تقرری بھی وزیراعظم عمران خان کی منظوری کا نتیجہ ہے۔

اس لیے ’’الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا‘‘ کی منطق کا کوئی جواز نہیں ، اسے کاروباری برادری اور عوام نہیں مانیں گے۔ زمینی حقائق اور اعصاب شکن اقتصادی عوامل کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا ملبہ بھی کسی اور ادارے پر گرانے کا سوچنا بچکانہ پن ہے ۔ ارباب اختیارکے پاس معاشی جبریت اور اقتصادی جدلیات سے پہلو تہی کا کوئی عذر یا آپشن موجود نہیں۔ ارباب اختیار مان لیں کہ معیشت برمودا ٹرائنگل میں پھنسی ہے،ایک گھن چکر کا سیناریو ہے جس کی ہمارے اعجازنفس معاشی مسیحاؤں کو سمجھ نہیں آرہی ۔

بجلی ،گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور رمضان المبارک میں شدید مہنگائی کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ملک چلانا حکومت کے بس کی بات نہیں، مہنگا ڈالر آئی ایم ایف ڈیل کا نتیجہ ہے۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ملک بوستان کے مطابق سب کیا دھرا حکومت کا ہے، جس نے بہت زیادہ قرضے لیے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو 4 سے5ارب ڈالر فراہم کرسکتے ہیں۔

بعض معاشی تجزیہ کار پیداشدہ صورتحال کو براہ راست آئی ایم ایف معاہدہ کے کالے بادلوں کے برسنے سے تعبیر کررہے ہیں،کچھ نے آئی ایم ایف پیکیج کے حوالہ سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ اقتصادی پھندا تو نہیں۔ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی گریہ کناں ہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری لی گئی اور نہ اپوزیشن ہی کو اعتماد میں لیا گیا۔

اس طرح کے سوالات کاروباری طبقات اور عوامی حلقوںمیں گردش کررہے ہیں، وزراء اور مشیران اقتصادیات روز توضیحات اور گریز پائی کے پینترے بدلتے ہیں مگر اس بات کا قوم کو یقین نہیں دلاسکے کہ معیشت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی ۔ اگلے روز گورنر ہاؤس اجلاس میں مشیر خزانہ ،چیئرمین ایف بی آر نے معاشی موضوع پر تاجر برادری سے مکالمہ کیا لیکن ہمارے کامرس رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حفیظ شیخ اور شبر زیدی تاجروں کے سوالوں کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکے۔

اس کا اعتراف تاجربرادری کے ممتاز رہنماؤں کی طرف سے آیا۔ رپورٹ کے مطابق معاشی ٹیم تاجر برادری کو بجٹ اقدامات اور IMF پروگرام پر قائل نہ کرسکی۔ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان سامنے آیا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ امریکا چین کشیدگی ہے، وزیر خارجہ بھی اسی بات کو لے کر چلے کہ ڈالر ریٹ کو مانیٹر کرنا اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے ، جب کہ اسٹیٹ بینک کے ترجمان نے ڈالر کی اونچی چھلانگ کو مثبت رجحان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تبدیلی زرمبادلہ مارکیٹ میں طلب ورسد کی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔یوں اداروں میں معاشی مسائل کے مربوط اور ٹھوس حل کی سمت صائب پیش رفت دیکھنے کے برعکس عوام اور ماہرین معیشت وضاحتوں کے انبار دیکھ رہے ہیں۔

حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اثرات غریب عوام اور کمزور طبقہ پر مرتب نہیں ہوں گے، بجلی کی قیمت بڑھے گی لیکن 300 یونٹس سے کم کھپت والے صارفین متاثر نہیں ہوں گے ۔تاہم ضرورت حکومت اور اپوزشین میں سیز فائر کی ہے۔معیشت کے بحران کو حل کرنے پر اتفاق رائے وقت کا تقاضہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔