قانون ساز ادارے

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 18 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

قانون ساز ادارے کسی بھی ملک کی تہذیب کے عکاس ہوتے ہیں۔ قانون ساز اداروں میں غیرمہذب لوگ نہیں بھیجے جاتے بلکہ اعلیٰ قدروں کے حامل لوگوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجا جاتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں کو مچھلی بازار بناکر رکھ دیا گیا ہے ماضی میں تو یہ بھی ہوا کہ منتخب نمایندوں کو اٹھا کر اسمبلیوں سے باہر پھینک دیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے منتخب نمائندے قانون ساز اداروں میں کس طرح Behave کیا جاتا ہے اس سے ناواقف ہیں؟ ہماری سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حکمران جماعت پر اپوزیشن کی تنقید ایک عام سی بات ہے لیکن تنقید اگر تہذیب اور پارلیمانی روایات کے برعکس ہو تو پھر وہ تنقید نہیں رہتی جارحیت بن جاتی ہے۔

بدقسمتی سے اس حوالے سے ہماری پارلیمانی تاریخ افسوسناک حد تک اخلاق اور بردباری سے عاری رہی ہے۔ جب سے تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے اپوزیشن کا رویہ اس قدر جارحانہ اور غیرپارلیمانی رہا ہے کہ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ 2008 سے 2013 تک 2013 سے 2018 تک پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتیں برسر اقتدار رہیں یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ان دس سالوں میں ملک کرپشن کا گڑھ بنا رہا ’’سب کچھ‘‘ اپوزیشن کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن اسمبلیاں نہایت شریفانہ طریقے سے اپنی ذمے داریاں ادا کرتی رہیں اور حکومتوں کو تاریخ میں پانچ سال تک اقتدار میں رہنے پر ایوارڈ دیے جاتے رہے۔

عام آدمی کو خواہ کتنا ہی مس گائیڈ کیا جائے وہ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ یہ ناانصافیاں اس لیے کی جا رہی ہیں بلکہ کھلی دھاندلیاں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ اس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں بلکہ مڈل کلاس سے ہے اور اگر مڈل کلاس کی حکومت کو پیر جمانے کا موقع دیا گیا تو اشرافیہ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔

جب سے تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے، شاید ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ حکومت سکون سے کام کرسکے۔ ہر روز پارلیمنٹ میں ایسا ہلا گلا کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنا کر رکھ دیا گیا ہے، بلاشبہ پاکستان میں کئی مسائل پیدا ہوگئے ہیں، خاص طور پر مہنگائی کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مہنگائی کا تعلق کسی حوالے سے موجودہ حکومت کی کرپشن سے ہے؟ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے حکومت کے بدترین دشمن بھی عمران حکومت پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔

دوسری وجہ حکومت کی نااہلی ہوسکتی ہے۔ ہماری  سیاسی تاریخ میں اہل حکومتوں کا قحط رہا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ہم جس سیاسی نظام میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس میں بڑے سے بڑا نا اہل ، اہل بنا رہتا ہے اور یہ سب دولت کے بھرپور استعمال کا اعجاز ہے۔کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر اہل ہے ایک ایسی حکومت جس کو پہلی بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے وہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے نااہلیت کا مظاہرہ کرسکتی ہے جب کہ موجودہ حکومت مڈل کلاس کے ایسے افراد پر مشتمل ہے جسے ان گروں سے تکنیک کا ذرہ برابر علم نہیں جن کے استعمال سے بڑے سے بڑے نااہل ہی نہیں بددیانت اور کرپٹ لوگ فرشتے نظر آتے ہیں یہی موجودہ حکومت کی بدقسمتی ہے۔

پروپیگنڈا اور جارحانہ سیاست ہماری  اشرافیہ کے دو ایسے حربے ہیں جو اپنے گناہ کو چھپا کر بے گناہوں کو گنہگار ثابت کر دیتے ہیں اور ہمارے بدقسمت ملک کے بدقسمت عوام کا المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنی مکمل تباہی سے بچنے کے لیے انھی دو حربوں کو استعمال کر رہی ہے اور غریب عوام کسی حد تک اس کے بہکاؤے میں آرہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام ہی نہیں بلکہ کچھ خواص بھی اس آسمان سے چھوتی کرپشن سے پریشان ہوگئے تھے اور نئی حکومت سے امید کر رہے تھے کہ وہ عوام کی جان کرپشن سے چھڑا دے گی۔ کرپشن کے خلاف جو احتساب کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ بہت نرم ہے اور اس سے اشرافیہ کو اور حوصلہ مل رہا ہے۔ حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے جو جارحانہ رویہ اپنایا ہوا ہے اس کی ایک بڑی وجہ احتساب میں غیر معمولی نرمی ہے جس نے کرپٹ اشرافیہ کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔

آج ملک کی جو حالت ہے 71 سال میں ایسی حالت نہیں رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری تیاری کے بغیر سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ عوام پریشان ہیں خاص طور پر مہنگائی کی وجہ سے لیکن مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے کیا حکومت کی نااہلی یا سابقہ حکومتوں کی کرپشن قرضوں کا انبار؟اس کی تحقیق اعلیٰ عدلیہ سے کرائی جائے تاکہ عوام کو پتا چل سکے کہ مہنگائی کے ذمے دار کون ہیں موجودہ حکومت کی نااہلی یا ماضی کی دس سالہ حکومتوں کی بے لگام کرپشن؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔