سماجی فعلیت اور تبدیلی کا عمل

عمران شاہد بھنڈر  ہفتہ 18 مئ 2019
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

سماج مختلف اقسام کے ہیں ، ان کی نوعیت ، ان کے محرکات، معاشی ساخت اور نظریاتی اقسام میں فرق ہوسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سماج انسان کی عملی فعلیت کی تخلیق ہے ۔

سماجی پروسیس کے دوران انسان کی عملی فعلیت اس نوعیت کی نہیں ہوتی کہ یہ کہا جا سکے کہ سماجی تخلیق یا پیداوار میں صرف انسان حسی طور پر شامل ہوتا ہے۔ عقل، خیال اور شعورکا کردار بھی اسی طرح فعال ہوتا ہے۔ سماجی پیداواری عمل یا سماجی تخلیق میں اضافے کے ساتھ سماجی عمل کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ، مبہم اورگہری ہوتی چلی جاتی ہے اب ان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔

جس میں ایک طرف پیداواری عمل میں انسان کی عقل، شعور یا خیال اہم کردار ادا کرتا ہے، تو دوسری طرف انسان کی عقل، خیال یا شعور اس پیداوار کی تنظیم سازی، اس کی بالائی ساخت ( نظریات، مذاہب، تعلیمی نظام، فلسفہ وفکر) کو بھی تشکیل دیتا ہے، اور انھی نظریات کو بروئے کار لاکر سماجی پیداواری عمل پر مسلط طبقات اپنے مفادات کے پیشِ نظر ان میں ربط و تنظیم پیدا کرنے کے لیے فلسفہ، منطق اور مذاہب وغیرہ کو بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔

جس پر لوگوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے اورکبھی بھی اس ظاہرکی پشت پر معاشی ، سیاسی اور نظریاتی مفادات کو مدِ نظر نہیں رکھتی۔ اکثریت اس حقیقت کو فراموش بھی کردیتی ہے کہ اس ظاہرکے جوہر تک پہنچنے کی بھی ضرورت ہے، اس لیے جب بھی سماج کے جوہرکی تفہیم درکار ہو تو محض اس سماج کا ذہن میں انعکاس ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ حسی فعلیت کے علاوہ شعورکے فعال کردارکی تفہیم بھی ضروری ہوتی ہے۔

سماجی عمل کی تفہیم کا سب سے موثر ذریعہ جدلیاتی مادیت کے وضع کردہ اصول ہیں، سمجھا جاتا تھا، اس سلسلے میں مذہب نے سماج کی تنظیم سازی میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔ صنعتی سماج کی تخلیق کے بعد مختلف مغربی معاشروں میں تجربیت، میکانکی مادیت اور بعد ازاں جدلیاتی مادیت جیسے فلسفے وجود میں آئے تو سماجی تضادات میں اس قدر اضافہ ہو چکا تھا کہ عقلی فلسفوں نے مسیحی الٰہیات کے ان عملی طور پر انفعالی کردارکو نمایاں کر دیا تھا اور عقل (ریزن) کو ایک ایسے منطقی اوزار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا جو نئے جنم لینے والے سماجی تضادات کی تحلیل کا کام کر سکتی تھی۔

جیسا کہ جرمن فلسفی ہیگل لکھتا ہے کہ عقل کی فعلیت ہی تھی کہ اس نے مذہب کی بنتر میں اپنے فعال کردارکو دریافت کر لیا تھا، جب کہ مذہبی بنتر ازسرِ نو اس عقلی، منطقی بنترکو الٰہاتی شکل دینے سے قاصر تھی۔ اس اہم نتیجے کو سامنے رکھ کر یہ تسلیم کرنے کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں ہے کہ عقل کی فعال جہت اذعانی فلسفوں کی رفیق نہیں، نہ ہی ان سے ہم آہنگ تھی، بلکہ وہ ان تضادات کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی جوکسی بھی اذعانی الٰہیات سے دریافت کرنے ممکن نہیں تھے۔ لہذا میکانکی مادیت پسندوں کا خیال پرست فلسفوں پر یہ اعتراض کہ وہ ’’عینیت پسند‘‘ ہیں کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔ میکانکی مادیت پسند عقلیت کے فعال کردار کی تفہیم سے خود قاصر رہے ہیں، جنھیں کارل مارکس نے فیورباخ پر لکھے ہوئے اپنے پہلے ہی تھیسس میں سمیٹ دیا تھا۔

ہمارے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام غالب ہے۔ اس سرمایہ داری نظام میں دو طبقات کے وجود کو واضح طور پر شناخت کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جو ذرائع پیداوارکا مالک ہے، دوسرا وہ طبقہ ہے جو محنت کشوں پر مشتمل ہے، جس کو اس کی جو اجرت ادا نہیں کی جاتی، وہ ’’قدرِ زائد‘‘ جو سرمایہ دارکو سرمایہ دار بناتی ہے، پھر سرمائے کا ارتکاز اور بعد ازاں اس کوسامراجی شکل عطا کرتی ہے۔ یہاں مختلف اقسام کے فلسفے ہیں جو بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

ایک ہیں سرمایہ دارانہ فلسفے جو محنت اور سرمائے کے تضاد کو حتمی اور فطری مان کر ان پر موجود تضادات کی تحلیل عقلی، منطقی بنیادوں پرکرنا چاہتے ہیں۔ ان کی بنیاد سماجی پیداواری عمل میں حسی فعلیت اور اس فعلیت کی تفہیم کے لیے فعال شعوری کردار پر نہیں ہوتی، جو سماج کے جوہر یعنی اس کی تشکیل کے عمل کی نوعیت کو سمجھنا چاہتے ہوں، بلکہ وہ حسی فعلیت کی بجائے موجود مظاہرکو حقیقی مانتے ہوئے مظاہرکی منطقی بنترکی دریافت تک ہی محدود رہتے ہیں۔

ان کے برعکس وہ فلسفے جو سماج کو بنی بنائی چیزوں کا مجموعہ نہیں سمجھتے، بلکہ حسی فعلیت کی پیداوار سمجھتے ہوئے اس کے جوہر تک پہنچ جاتے ہیں۔ سماج کے جوہر تک پہنچنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ سماج کو اس کے ’’بننے‘‘ اس کی تشکیل کے عمل میں دیکھا جائے، چونکہ تشکیل کے اس عمل میں انسان بھی شامل ہے۔ اس لیے اس انسان کی فعال سرگرمی میں مضمر منطقی بنتر کی دریافت کی جاتی ہے، جس کی وضاحت آغاز میں کی گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ یا بورژوا فلسفے بھی عقلیت پسند ، عینیت پسند یا تجربیت پسند ہوتے ہیں، لیکن ان سب کی بنیادی خامی ہی یہ ہے کہ یہ سماجی عمل میں موجود جوہری تضادات، شگاف اور خلاکو دریافت نہیں کر پاتے یا بصورتِ دیگر اگر ان تضادات تک رسائی حاصل کر بھی لیتے ہیں تو انھیں مخفی رکھنے کی جانب مائل ہوتے ہیں۔

ان کے برعکس جدلیاتی منطق کے فلسفے میں نہ صرف یہ کہ جوہری تضادات، خلا یا شگاف وغیرہ کو عیاں کیا جاتا ہے بلکہ ان تضادات کی تحلیل کے لیے بنیاد بھی فراہم کردی جاتی ہے۔ تاہم ان دونوں میں بنیادی فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے، اور وہ یہ کہ ایک سماج کو بنی بنائی چیزوں کا مجموعہ سمجھتا ہے، جب کہ دوسرا سماج کو اس کے ’’بننے‘‘ کے عمل میں دیکھتا ہے اور ’’بننے‘‘ کا یہ عمل شعور اور حسی فعلیت کی جدلیات پر قائم ہے۔سرمایہ داری کے حامی فلسفیوں نے ’’موضوعیت‘‘ کی جن بنیادوں کو دریافت کیا تھا،ان کو بروئے کار لا کر وہ سماج میں بنیادی تبدیلی کا راستہ روکنے میں کامیاب رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب سماجی عمل کو اپنی ہی فعلیت سے تبدیل کرنے والے اسی موضوعیت (سیاسی جماعت، طبقاتی شعور) کے فقدان کی وجہ سے ناکام رہے ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ موضوعیت کو نظریے میں دریافت کیا جائے، بلکہ موضوعیت کو اس کے ’’بننے‘‘ کے عمل میں دیکھا جائے، حقیقی معروضی حالات کا ٹھوس تجزیہ پیش کیا جائے اور اس بننے کے عمل کا شعور بھی حاصل کیا جا ئے تاکہ تبدیلی کا عمل موثر بنیادوں پراستوارکرنے میں مدد مل سکے۔ موضوعیت معروضی حالات سے باہر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اندر ہی متحرک ہوتی ہے، فرق محض یہ ہے کہ اس کو معروضی حالات سے کاٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں کوئی معروضیت ایسی نہیں ہے جو انسان کے بغیر وجود میں آسکے اور نہ ہی کوئی انسان ایسا ہوسکتا ہے، جو معروضی حالات کی پیداوار نہ ہو۔ انقلابی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر ان طبقات کی شعوری پرورش کی جائے جو حقیقت کو اپنی کے برعکس کسی اور شے کی تخلیق سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔