کیا گرمی میں سیاسی گرما گرمی نتیجہ خیز ثابت ہوگی؟

 ہفتہ 18 مئ 2019
احتجاج کا طریقہ کیا ہوگا اور متحدہ اپوزیشن اس کا آغاز کب کرے گی؟ فی الحال کا تعین ہونا باقی ہے۔ (فوٹو: فائل)

احتجاج کا طریقہ کیا ہوگا اور متحدہ اپوزیشن اس کا آغاز کب کرے گی؟ فی الحال کا تعین ہونا باقی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عید کے بعد جون کی گرمی میں ملکی سیاسی ماحول میں بھی گرما گرمی کا ماحول پیدا ہونے جارہا ہے۔ ایک طرف غیرفعال متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بیساکھیاں لے کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاریاں کررہے ہیں تو دوسری جانب ایم ایم اے کا حصہ رہنے والی جماعت اسلامی مہنگائی، بیروزگاری اور احتساب کے عنوان سے اکیلے ہی عوامی رابطہ مہم چلائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے جماعت اسلامی کو بھی اپوزیشن کے مشترکہ احتجاج میں شامل ہونے کی متعدد بار دعوت دی گئی مگر جماعت اسلامی اب مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کو تیار نظر نہیں آتی۔

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو پہلی بار اسمبلی سے باہر ہیں، وہ پہلے دن سے ہی حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں لگے ہیں تاہم انہیں اس مقصد کےلیے کوئی مؤثرجماعت نہیں مل رہی تھی جو اُن کا ساتھ دے سکے۔ مولانا کی اپنی جماعت کا زیادہ اثر و رسوخ خیبر پختونخوا میں ہی ہے۔ باقی صوبوں میں جے یوآئی (ف) محض ایک مذہبی جماعت کے طور پر نظر آتی ہے جس کے پاس زیادہ افرادی قوت نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کئی ماہ سے حکومت مخالف ملین مارچ کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں۔ تاہم دونوں جماعتوں نے مولانا کو بہتر موقعے کے انتظار کا مشورہ دیا۔

اس وقت جبکہ نوازشریف ایک بار پھر جیل میں ہیں، شہباز شریف ملک سے باہر ہیں اور آصف زرداری عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن کی مراد پوری ہوگئی ہے اور آصف علی زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ اب پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ سڑکوں پر حکومت مخالف تحریک چلائیں گے۔ اس حوالے سے بلال بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں 19 مئی کو سیاسی جماعتوں کے قائدین کو افطار ڈنر پر بھی مدعو کیا ہے۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھی پارٹی رہنماؤں کو بیروزگاری، ایمنسٹی اسکیم اور مہنگائی کو لے کر حکومت کے خلاف احتجاج کی ہدایت کردی ہے۔

احتجاج کا طریقہ کار کیا ہوگا اور متحدہ اپوزیشن اس کا آغاز کب کرے گی؟ اس ضمن میں فی الحال تاریخ کا تعین ہونا باقی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی واضح نہیں کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت مخالف تحریک کےلیے ایک ہوجاتی ہیں تو مولانا فضل الرحمن کا کیا بنے گا؟ اور کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گے؟ اتنا ضرور طے ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں حکومت مخالف احتجاج کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو دینے پر تیار نہیں ہوں گی۔

دوسری طرف جماعت اسلامی ہے جو سولو فلائٹ کرنا چاہتی ہے۔ وہ احتجاج بھی کرنے جارہی ہے تاہم کوئی ایسا راستہ بھی اختیار کرنا نہیں چاہتی جس سے جمہوری نظام ڈی ریل ہونے کا خدشہ ہو۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عید کے بعد سیاسی ماحول میں گرما گرمی ہوسکتی ہے لیکن سیاسی گرمی کا یہ عرصہ بھی جون جولائی کی گرمی کی طرح گزرجائے گا۔ سیاسی حبس ضرور پیدا ہوگا لیکن حکومت چلتی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔