مشرق وسطیٰ کی دشمن قوتیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 26 اگست 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میرے سامنے کمپیوٹر اسکرین پر ایسے بچوں کے مناظر ہیں جو تڑپتے ہوئے اپنی جان دے رہے ہیں۔ یہ بچے شام میں کیمیائی حملوں کی زد میں آکر متاثر ہوئے ہیں۔ اس دردناک منظر کی دلخراش بات یہ ہے کہ یہ بچے تکلیف سے رو نہیں رہے نہ ہی آہ و بکا کر رہے ہیں بلکہ خاموشی سے تڑپ تڑپ کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ان بچوں کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں ہیں لیکن یہ مناظر اس قدر تکلیف دہ ہیں کہ راقم کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے اور یہ مناظر دیکھنا محال ہوگیا، چنانچہ کمپیوٹر آف کردیا۔ ذہن میں بار بار یہ مناظر اب تک روح کو زخمی کیے ہوئے ہیں اور یہ خیال آرہا ہے کہ آخر کون اتنے سنگدل ہیں جو پھول سے معصوم بچوں کو ایسی سزا دے رہے ہیں کہ بچوں کو رونے کی اور آنسو نکالنے کی بھی مہلت نہیں مل رہی ہے؟

مذکورہ بیان کردہ مناظر حال ہی میں شام (دمشق) کے علاقے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے بعد دنیا نے دیکھے ہیں۔ آج سے نصف صدی قبل کے قریب ہیروشیما اور ناگاساکی میں اس قسم کے موت کے وحشیانہ مناظر کے بعد توقع ہوچلی تھی کہ آیندہ جدید عہد کے نام نہاد امن کے متوالے ایسے واقعات کا اعادہ ہونے نہ دیں گے، مگر آج پھر احساس ہوا کہ عالمی سیاست اور سازشیں ایک ہی ریاست کی مختلف قوتوں کو اس قدر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف ایٹم بم سے بھی کہیں خطرناک ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔

ان واقعات پر عالمی برادری کا کیا ردعمل ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے فوری طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے تخفیف اسلحہ کی سربراہ اینجیلا کین کو واقعے کی تحقیق کے لیے شامی حکومت سے اجازت کا مطالبہ دہرایا۔ فرانس کے وزیر خارجہ لوراں جنیوس نے کہا کہ اگر حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو اس کا طاقت سے جواب دینے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ انھوں نے شامی حکومت پر سارین گیس استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے فوری ردعمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ پر تنقید کی۔ ادھر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یہ بات خارج از امکان نہیں کہ حکومت مخالفین نے بھی یہ گیس استعمال کی ہو۔ گزشتہ سال امریکی صدر اوباما بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ کیمیائی ہتھیار کا استعمال سرخ لائن عبور کرنے کے مترادف ہے۔دوسری طرف شامی حکومت نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں من گھڑت قرار دیا ہے اور عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ شامی حزب اختلاف نے دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام شامی حکومت پر لگاتے ہوئے سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

بعض تجزیہ نگار ان الزامات کی بھرمار پر ایک جانب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پہلے ہی شامی حکومت باغیوں سے کئی علاقے خالی کرانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور اقوام متحدہ کے انسپکٹر پہلے ہی تحقیقات کے لیے یہاں موجود ہوں تو بھلا شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی حماقت کیوں کرے گی؟ دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر ایسا نہیں تو پھر کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد جعلی طور پر کیسے دکھائی جاسکتی ہے؟

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق علاقے میں منظم طریقے سے محاصرہ، کیمیائی ہتھیار استعمال اور لوگوں کو بے گھر کرنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔

اہم سوال یہ نہیں ہے کہ ہتھیار استعمال کرنے والا کون ہے؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کے باوجود کیوں استعمال کیا گیا اور اس کے استعمال سے معصوم انسانی جانوں خصوصاً بچوں کو بھی متاثر کیا گیا یعنی یہ عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنے۔ مزید یہ کہ موجودہ حالات میں ایسے خطرناک ہتھیار استعمال کرنے کے واقعات کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟

عالمی منظرنامے خصوصاً عرب ممالک، مشرق وسطیٰ وغیرہ کی سیاسی صورت حال اور واقعات کا گزشتہ دہائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ عالمی قوتیں ان علاقوں خصوصاً عرب ممالک میں سیاسی منظرنامہ اور قوت کا توازن بدلنا چاہتی ہیں جس کا ایک بڑا فائدہ براہ راست اسرائیل اور اس کے بعد امریکا کو پہنچتا نظر آتا ہے۔

تسلسل سے ہونے والے واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ ان قوتوں کے دو بڑے مقاصد ہیں، نمبر ایک یہ کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کو فرقہ واریت کے نام پر تقسیم کرکے آپس میں دست و گریباں کردیا جائے تاکہ یہ قوت ان کے خلاف استعمال ہونے کے آپس میں منقسم اور متحرک ہوجائے اور نمبر دو یہ کہ یہاں وہ حالات پیدا کردیے جائیں جو خانہ جنگی پر پہنچ جائیں، اس عمل سے بھی ان علاقوں میں مسلم قوت آپس میں ٹکرا کر ختم ہوگی، نیز حکومتیں عوام کی حمایت سے محروم ہوکر مزید کمزور ہوجائیں گی نتیجے میں ریاست کمزور ترین ہوجائے گی خواہ حکومت کسی کی بھی ہو۔

اس کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے مصر کی شکل میں موجود ہے، جہاں پہلے فوج نے اخوان المسلمین کے خلاف کارروائی کی پھر مرسی کے حامیوں پر فوج نے ٹینک چڑھائے، نہتے مظاہرین کو گھیرے میں لے کر قتل عام کیا اور حکومت کی خونیں کارروائی پر فورسز کو مبارکباد کا پیغام دیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ صدر مرسی کے حامیوں کے احتجاج کو مخالف لبرل پارٹی کے لوگوں سے تصادم کے لیے اسٹیج تیار کیا گیا تاکہ لبرل عناصر اور اسلام پسندوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوجائے۔

ظاہر ہے اس عمل سے جب ریاستی عوام کے درمیان تصادم ہوگا تو دونوں فریقین میں بدگمانیاں اور فاصلے پیدا ہوں گے، جس سے اخوان المسلمون کو مستقبل میں لبرل قوتوں کے ووٹ سے بھی قطعی طور پر ہاتھ دھونا پڑے گا جب کہ احتجاج کے دوران اگر صرف ایک حریف یعنی حکومت یا فوج ہوتی تو دونوں عوامی قوتوں میں فاصلے پیدا نہیں ہوتے اور اخوان المسلمون اپنی کارکردگی سے لبرل ووٹرز کو بھی اپنے قریب لانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی۔ ماضی میں اخوان المسلمون اپنی اسی کوشش کے باعث ایک لبرل معاشرے میں اپنی جگہ تیزی سے بنانے میں کامیاب ہوئی اور یہی بات مخالفین یا ان قوتوں کو پسند نہیں ہے جو اس پورے خطے میں افراتفری اور خانہ جنگی چاہتی ہیں۔

یہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ اس خطے کی دشمن قوتیں کیا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں اور وہ کن ذرایع کو استعمال بھی کر رہی ہیں۔ ذرایع ابلاغ کے روایتی اور فیس بک جیسے جدید ذرایع کو استعمال کرکے ’’تحریر اسکوائر‘‘ بنانے میں پس پشت کن کا ہاتھ ہوسکتا ہے یا یہ تجربہ کن کا ہوسکتا ہے؟ پوری تاریخ میں بادشاہت کو سہارا دینے والے آج جمہوریت کا درس اس خطے میں کیوں الاپ رہے ہیں؟ وہ کون سی قوتیں ہیں جو کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے عام شہریوں خصوصاً معصوم بچوں کو انتہائی کرب ناک موت سے ہم کنار کر رہے ہیں اور ان معصوم بچوں کے قتل کو مختلف مذہبی اور دیگر روپوں کا نام دے کر اصل حقائق سے پردہ پوشی کر رہے ہیں؟ تاریخ کہتی ہے کہ فرعون نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اور بادشاہت قائم رکھنے کے لیے بچوں کا قتل عام کرایا، آج پھر کچھ قوتیں اپنا اقتدار اور تسلط جمانے کے لیے بچوں کے قتل کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک سے لے کر ہمارے وطن تک خانہ جنگی اور فرقہ واریت کی جنگ کی سازش کے تانے بانے دکھائی دے رہے ہیں۔

آئیے! ان سازشوں کو سمجھیں کہ بظاہر یہ چند واقعات ہیں یا بڑی قوتوں کو مداخلت کے مواقع فراہم کرنے کے جواز؟ اگر ہم اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ کچھ قوتیں اس پورے خطے کی ریاست میں فرقہ واریت کی جنگ یا خانہ جنگی چاہتی ہیں تو پھر لازماً تمام اسلامی ریاستوں میں مسلم تحریکوں اور جماعتوں کی پہلی ترجیح اقتدار نہیں بلکہ عوامی اتحاد اور عوام میں اپنی ساکھ اور جڑیں مضبوط بنانے پر ہونی چاہیے کیونکہ اس سے دشمن قوتوں کے عزائم اور حکمت عملی بری طرح ناکام ہوجاتی ہے جب کہ آپس میں ٹکڑے ہوکر یا کمزور ہوکر اقتدار حاصل کرلینے سے کوئی دائمی فائدہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ مخالفین قوتوں کے لیے حکومتیں گرانا الٹے ہاتھ کا کام ہے اس کا عملی مظاہرہ ہم پاکستان تا مشرق وسطیٰ تک گزشتہ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔