جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

شاہد سردار  اتوار 19 مئ 2019

وطن عزیز میں معرض وجود میں آکر اقتدار حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے صرف 9 ماہ بعد ہی اپنے وزیر خزانہ کو تبدیل کردیا۔

بظاہر یہ کوئی ناقابل فراموش تبدیلی تو نہیں کہی جاسکتی لیکن تحریک انصاف کی حکومت یا وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے دنیا اسے انتہائی غیر معمولی بات تصورکر رہی ہے کیونکہ وفاقی کابینہ میں اس تبدیلی نے تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی قیادت کے بارے میں سوالات پیدا کردیے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان میں ’’ تبدیلی‘‘ لانے والی پہلی ٹیم کا انتخاب ہی درست نہیں تھا۔

لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اپنے دور اقتدار میں پانچ سال میں پانچ وزیر خزانہ تبدیل کیے تھے اور پیپلز پارٹی کے چوتھے وزیرخزانہ بھی حفیظ شیخ تھے۔ عمران خان نے بھی اب اسد عمرکی جگہ ان سے استفادہ کیا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے دور حکومت میں اسی منصب پر فائز رہنے والے یہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ناکام وزیر خزانہ ثابت ہوئے اور اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ غیر سیاسی آدمی ہیں اور انھیں پاکستان، اس کے طول و عرض اور اس کے مصائب وآلام سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ وہ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں، وہ پاکستان تبھی آتے ہیں جب انھیں ’’دعوت‘‘ دے کر حکومتی منصب ملتا ہے اور جیسے ہی ان کی حکومتی ’’ذمے داری‘‘ ختم ہوتی ہے وہ فوراً بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو اب تک کون چلا رہا ہے نہیں معلوم؟ گورنر اور وزیر اعلیٰ ایسا لگتا ہے الگ الگ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے۔ کم و بیش صوبہ سندھ کا بھی یہی حال ہے، سندھ کے وزیر اعلیٰ مرکز سے اور مرکز ان سے سخت ناراض ہے۔کتنے افسوس اور کتنی تشویش کی بات ہے کہ پاکستان میں ’’ تبدیلی‘‘ لانے والی سیاسی جماعت نے اپنی حکومت کے پہلے سال کو بھی مکمل نہیں کیا اور صرف نو مہینوں میں خود ہی یہ اعتراف کرلیا ہے کہ اس کی ٹیم کامیاب نہیں رہی۔

اتنی جلدی توکسی بھی ماضی میں آنے والی حکومت پر ناکامی کی چھاپ نہیں لگی تھی، جتنی جلدی پی ٹی آئی حکومت پر لگ رہی ہے۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ہرکس و ناکس ہوش ربا گرانی سے مرنے کے قریب تر پہنچ گیا ہے، مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری، کاروبارکے ٹھنڈے پڑنے کے علاوہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اب پھر سے بڑے بڑے شہروں میں سر اٹھا کرکھڑا ہوگیا ہے اور اگر جلد ہی اس کا سدباب نہیں ہوا تو عوام اب سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں لگائیں گے، شاید اب کوئی ’’چمتکار‘‘ بھی اس حکومت کو بچا سکتا ہے۔کیونکہ حکومت چلانا اب اس حکومت کے بس میں نظر نہیں آرہا۔کیونکہ جس وزیر اعظم کی حکومت صرف چار ووٹوں کی اکثریت پرکھڑی ہے، اس نے پانچ ارکان اسمبلی کی وزارتیں بدل دیں۔

عمران خان کوکچھ حساس معاملات میں سمجھوتہ کرنا پڑے گا اور اسے اپنی انا کا مسئلہ بنانے سے گریزکرنا ہوگا، انھیں پنجاب کو سنبھالنا ہوگا اور اگر پنجاب نہ سنبھلا تو ان کی حکومت کے پانچ سال کسی طور پورے نہ ہوسکیں گے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان میں حقیقی سیاسی تبدیلی اور معاشی کایا پلٹ کے لیے ایسی مضبوط اور زیادہ دیر چلنے والی ٹیم کا ہونا ضروری ہے، جو اقتدارکی خاطر اپنے نظریات اور سیاسی وابستگی کو تبدیل نہ کرے اور جس میں باہرکے ایسے کھلاڑی بھی نہ ہوں جو میچ فکس کرکے کھیلیں۔ فرض کرلیا جائے کہ نئی ٹیم بھی نئے کھلاڑیوں کی شمولیت اور پرانے کھلاڑیوں کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کے ساتھ بھی نہ چل سکی تو پھرکیا ہوگا؟ کیا بار بار ٹیم تبدیل کی جاتی رہے گی اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

اندیشہ، خوف یا ڈر اس بات کا بھی ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی ہم خیال دیگر جماعتوں کوکرپٹ قرار دے کر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف آخر ناکام ہوئی تو پھر ایسا سیاسی خلا پیدا ہوگا جو سیاسی قوتیں طویل عرصے تک پر نہ کرسکیں گی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں یہ بات انتہائی تشویش ناک کہی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے وقت کا سب سے بڑا سوال یہ ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ کیا پاکستان موجودہ حالات میں ایسے تجربات کا متحمل ہوسکتا ہے؟

یہ بھی اب ایک کڑوی سچائی بن کر سبھی کے سامنے آچکی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو لانا، لانے والوں کے لیے بے سود ہوکر رہ گیا ہے اور یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ دس ماہ ہونے کو آئے ایک روپیہ بھی کرپشن کا سرکاری خزانے میں واپس نہیں آسکا اور نہ ہی آنے کی کوئی امید ہے۔ سوائے عدالتی پیشیوں کے اور صرف سہولت کاروں کا دائرہ تنگ ہونے تک محدود ہے۔کون نہیں جانتا سیکیورٹی، لا اینڈ آرڈر، مہنگائی اورکرپشن کے حوالوں سے ہمارا ملک اپنی پستیوں کی آخری حدوں میں داخل ہوچکا ہے۔

وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد بھی عمران خان کی حکومت معیشت کو نہ سنبھال سکی تو سب کی چھٹی ہوجائے گی اور سسٹم کا بھی دی اینڈ ہوجائے گا اور ایسی صورتحال میں اپوزیشن کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کو بہرطور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا، وگرنہ ایک کی ناکامی دوسرے کی کامیابی نہیں بنے گی، دونوں کا کام تمام ہوجائے گا اور یوں محمود و ایاز ایک ہی صف میں نہیں بلکہ ایک ہی جیل میں کھڑے نظر آئیں گے۔

عمران خان پڑھی لکھی مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ اگر وہ کامیاب نہ ہوئے تو مڈل کلاس کا نئے پاکستان کا خواب چکنا چور ہوکر رہ جائے گا۔ کارپوریٹ کلاس جب جدید اور شفاف پاکستان کی تعمیر چاہتی تھی وہ تعمیر نہ ہوا تو ان کا پاکستان پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ دنیا بھر کی مڈل کلاس اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور پرانے برسر اقتدار طبقوں کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ عمران خان کامیاب نہ ہوئے تو یہ ابھرتی ہوئی مڈل کلاس ایک بار پھر سے لاتعلقی اور بیگانگی کا شکار ہوکر سیاست سے الگ ہوجائے گی اور زیادہ دور نہیں نومبر تک اگر صورتحال میں مثبت تبدیلی نظر نہ آئی تو آئندہ سال مڈٹرم انتخابات کا سال ہوگا، کیونکہ فی الحال تمام راستے اسی سمت جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔