بداعتمادی کی زنجیریں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 19 مئ 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

لارڈ بولنگ بروک کا یہ مقولہ کتنا سچا ہے کہ دوسروں کے متعلق بدظن رہنا، ذلیل طبیعت اور ناپاک روح کی کھلی پہچان ہے۔ اعتماد سے ایک دو آدمی نہیں بلکہ قوموں کی قومیں سدھرگئیں۔ پچھلی صدی کے آخر تک برطانیہ میں دستور تھا کہ سرکاری عمارت مثلاً عجائب خانوں میں عوام کو بلا روک ٹوک آزادانہ پھرنے کی اجازت نہ تھی۔

تمام تاریخی عمارتیں بند پڑی رہتی تھیں صرف وہ آدمی جو افسران بالا سے خصوصی اجازت نامے حاصل کرلیتے یا فیس کی رقم ادا کرسکتے، وہاں سیرکرنے کے لیے داخل ہوسکتے تھے۔ برٹش میوزیم ، نیشنل گیلری،کلیسائے سینٹ پال، قلعہ ونڈسر، ویسٹ منسٹر، ایوان پارلیمنٹ، قومی مرقع خانے غرض ہر قابل دید عمارت کے دروازے عوام پر بند تھے۔ ارباب حکومت کا خیال تھاکہ اگرعام آدمی ان میں آزادانہ داخل ہونے لگیں گے تو لکڑیوں اور پتھروں پر لکھ کر دیواریں کھرچ کر اور فرشوں کوگندہ کرکے ان قابل احترام عمارتوں کا حلیہ بگا ڑ ڈالیں گے۔

اس کے خلاف سب سے پہلے جوزف ہیوم نے آواز اٹھائی پارلیمنٹ میں اس تحریک کے متعلق بڑی لے دے ہوئی اکثر ارکان کا خیال تھا کہ اگر تاریخی عمارتوں کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں تو اس سے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان میں رکھی ہوئی بیش قیمت چیزیں چوری ہوجائیں گی۔ بہرحال بڑی بحث کے بعد جوزف ہیوم کی تحریک کامیاب ہوگئی سب سے پہلے بطور تجربہ برٹش میوزیم میں عام داخلے کا اعلان ہوا، پھر بھی اتنی احتیاط ملحوظ رکھی گئی کہ ایک وقت میں پانچ پانچ ،چھ چھ آدمیوں کو داخلے کی اجازت دی جاتی تھی، جن کے ساتھ نگہبانی کے لیے ایک سپاہی تعینات رہتا تھا، تاکہ اگرکوئی آدمی تاریخی یادگاروں کو نقصان پہنچانا چاہے تو وہ اسے گرفتار کر لے۔

رفتہ رفتہ برٹش میوزیم میں داخل ہونے والوں سے ہرقسم کی پابندی یا نگرانی ہٹادی گئی، اس کے بعد ہرطبقے ہرپیشے کے آدمیوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ وقت معینہ کے اندر جب ان کا جی چاہے آزادانہ آئیں اور اپنی قومی دولت کو دیکھیں جس دن یہ اعلان ہوا۔اس روز اکتیس ہزار پانچ سو آدمی برٹش میوزیم کی سیرکرنے کے لیے آئے۔ لارڈ اسٹینلی اسی آزادی کے سب سے بڑے مخالف تھے لیکن جب انھوں نے میوزیم کا اس روزکے اختتام پر معائنہ کیا تو دیکھا کہ کسی چیزکو ذرا سابھی نقصان نہیں پہنچا تھا۔اگلے دن انھوں نے پارلیمنٹ میں بڑے مستقل لہجے میں یہ بیان کیا کہ اس سے پہلے میں ڈرتا تھا کہ کھلی اجازت بہت نقصان دہ ثابت ہوگی ، لیکن اب یہ کہنا چاہتاہوں کہ کل ساڑھے اکتیس ہزار آدمی برٹش میوزیم میں داخل ہوئے اورکسی چیزکا رتی برابر نقصان نہیں ہوا۔

لارڈ اسٹینلی کی حیرانی بے جا تھی عوام کے اس با احتیاط اور شریفانہ رویے کا راز صرف اس بات میں پوشیدہ تھا کہ حکومت نے ان پر اعتماد کیا تھا، لہذا خود بخود ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے تئیں اعتمادکا اہل ثابت کرکے دکھا دیں۔ ہیوم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں، نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے لیے تمام تاریخی اور قابل دید عمارتوں کے دروازے یکے بعد دیگرکھلتے چلے گئے، یہ تحریک لندن کے بعد دیگرشہروں میں بھی پھیل گئی۔

1851کی عظیم الشان نمائش میں بھی عوام نے اسی بلند کرداری کا ثبوت دیا، پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھا تھا کہ اس موقعے پرقصر بلوریں کے ارد گرد فو ج کا پہرہ لگا دیا جائے یا نہیں تھوڑی سی بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ اس احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نمائش کے دوران لاکھوں آدمی اندر داخل ہوئے لیکن نہ کوئی چیز چوری ہوئی نہ کسی شے کا رتی بھر نقصان ہوا۔ پست اخلاقی کو شکست دینے کے لیے اعتماد بہترین حربہ ہے قانون پسندونصیحت وعظ وتلقین سب اپنی جگہ لیکن کسی شخص میں بلندکرداری اور ذمے داری پیدا کرنے کی عمدہ ترین ترکیب یہ ہے کہ اس پراعتماد کیاجائے اور اسے یہ سمجھنے کا موقع دیا جائے کہ ہم اس پر اعتبارکرتے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں اس کی عزت نفس کو تسلیم کرتے ہیں ۔

انسان کے خوابیدہ ، زنگ آلود ضمیرکو جگانے کی یہ ہی ایک صورت ہے کہ اسے اختیارات وحقوق دے کر اس کے دل میں عزت نفس کا شعور پیدا کردیا جائے۔ ’’ انسان پر اعتماد کرو‘‘ یہ وہ مقولہ ہے جس کی سچائی ہمیشہ ہی سے تسلیم کی گئی ہے۔ ’’انسان اعتماد کے سہارے چلتے ہیں‘ بینائی کے سہارے نہیں‘‘ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف پاکستانیوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی، اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں ،اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دورکا سب سے عظیم فاتح بنایا۔ پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل اعتماد تھا، اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا، اسے اس بات کا مکمل بھروسہ تھاکہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی یا کوئی ایسی صورت حال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس موجود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا جب وہ کئی ہفتوں تک اس کش مکش میں مبتلا رہا کہ آیا آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑجانا چاہیے کیونکہ وہ سردیوں میں ماسکو میں پھنس گیا تھا حالانکہ قدرت نے پہلے پہل اسے بھرپور موقع دیا تھا۔اس مرتبہ برف باری پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا، اس لیے وہ جنگ ہارگیا ایسا نہیں کہ اسے برف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو اس کے خوف نے ہرایا ۔امریکا یورپ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی، خوشحالی ، استحکام ، امن کے پیچھے صرف ایک ہی راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے کہ انھوں نے صرف اپنے عوام پر اعتمادکیا اورانہیں اعتماد دیا ، جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے وہ ممالک جو بدحالی، غربت، افلاس ، عدم برداشت ، دہشتگردی ، بدامنی میں اپنی مثال آپ ہیں، وہاں کے کرتا دھرتائوں نے کبھی بھی اپنے عوام پر نہ تو اعتمادکیا اور نہ ہی انہیں اعتماد دیا۔ان کی اپنے عوام کے بارے میں وہی سوچ رہی ہے، جو پچھلی صدی کے آخر تک برطانیہ کے حکمرانوںکی اپنے عوام کے بارے میں تھی ۔

پاکستان کے عوام آج جوکمزور،لاغر، منقسم، خوفزدہ ، ڈرے ہوئے نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ انہیں ہمیشہ غیر ذمے دار، غیر تہذیب یافتہ سمجھ کر، اعتبار نہ کرکے دھتکارا جاتا رہا ، انہیں نہ کبھی اقتدار دیاگیا اور نہ ہی اختیار۔ان کے نام پر صرف اور صرف سیاست کی جاتی رہی اور انہیں صرف اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھا جاتا رہا جس کی وجہ سے لو گ ناکارہ ردی انسانوں میں تبدیل ہوکے رہ گئے ہیں،گل اور سڑگئے ہیں ، بے بسی کی زنجیروں نے انہیں ایسا جکڑا کے سارا جسم لہو لہان ہوگیا ، انہیں ہمیشہ ملکی معاملات سے بے خبر اور لاعلم رکھا گیا، یہ ہی رویہ آج تک جاری ہے۔ یہ عالمگیر سچائی ہے کہ جب عوام با اختیار اور با اعتماد ہوتے ہیں تو ملک مضبوط، خوشحال اور مستحکم ہوتا ہے اور جب عوام بے اختیار ہوتے ہیں تو ملک دہشت زدہ اور دیمک زدہ ہوجاتا ہے، خدارا ملک اورعوام پر رحم کرو اپنے اقتدار اور طاقت وعیش وعشرت کی خاطر ملک کو دوزخ میں تبدیل مت کرو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔