درد بہت ضروری ہے…

شیریں حیدر  اتوار 19 مئ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ نے کبھی غور کیا کہ ہمارے پاس جو ایک جسم ہے، یہ فقط ایک جسم نہیں بلکہ پورا ایک نظام، آج تک کی گئی ایجادات میں سے سب سے زیادہ پیچیدہ اور منظم طریقے سے کام کرنے والی مشین ہے۔ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن کے بیچ لاکھوں اور کروڑوں کے حساب سے جلد، پٹھے، ہڈیاں، جوڑ، گوشت، لہو، گودا، پانی، مسام، رگیں، نسیں، بال، ناخن، دانت اور دیگر اہم اعضاء شامل ہیں ۔

اس مشین میں ایک ننھے سے خلیے سے لے کر بڑے سے بڑے عضو تک کچھ بھی بے مقصد ہے نہ فالتو۔ اگر کہیں کوئی فالتو چیز رکھی گئی ہے تو اس کا بھی کوئی نہ کوئی استعمال ضرور ہوتا ہے جیسے پنڈلیوں میں موجود رگیں، دل کے آپریشن کی صورت میں دل کے والو کی جگہ پر لگائی جاتی ہیں، اسی طرح اگر کوئی اور چیز جو ہمیں بظاہر فالتو نظر آتی ہے، اس کا کوئی نہ کوئی مقصد معلوم ہو چکا ہے یا ابھی بھی اس پر ریسرچ جاری ہو گی۔ جب سے انسان کا ارتقاء شروع ہوا ہے، اس پیچیدہ مشین کو جاننے اور سمجھنے کا عمل جاری ہے اور لاکھوں برس گزر جانے پر بھی ابھی تک کوئی نہ کوئی انکشاف ہوتا رہتا ہے۔

آپ کو کبھی احساس ہوا کہ آپ کا جسم… آپ کی کتنی قیمتی اور اہم ملکیت ہے؟ کیا کبھی آپ کو اپنے پاس اپنے تمام اعضاء کی موجودگی کا احساس بھی ہوا ہے؟ نہیں نا!! کیونکہ جب تک ہر عضو اپنا کام خاموشی سے کر رہا ہے ، ہمیں اس کے ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمیں صرف اس عضو کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے جس میں تکلیف ہو یا کوئی ایسا عضو جو ناکارہ ہو جائے یا سرے سے ہمارے پاس ہو ہی نہیں ۔ اپنے ہاتھوں سے ہم دن بھر کام کرتے ہیں مگر ان کے ہونے کا نہ احساس ہوتا ہے نہ احساس تشکر۔ ہاں مگر جب ہم حادثاتی طور پر ہاتھ کو جلا لیں یا کام کرتے ہوئے چھری سے کٹ لگ جائے ، تب اس ہاتھ میں ہونے والی تکلیف اور درد ہمیں احساس دلاتا ہے کہ نہ صرف ہمارے پاس ہاتھ ہے بلکہ اس میں درد بھی ہے۔

پس ثابت ہوا کہ کسی چیز کے ہونے کا یقین کرنے کے لیے درد کا ہونا ضروری ہے ورنہ ہمیں کبھی معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کتنا بڑا خزانہ ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔ درد کان میں ہو یا دانت میں، آنکھ میں ہو یا گلے میں ، بازو، کہنی ،کندھے میں ہو یا پاؤں، ٹخنے اور گھٹنے میں، سر میں ہو یا کمر میں… ہر درد اذیت کا باعث بنتا ہے اور اس قدرکہ انسان کو لگتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف میں نہیں ہے۔ اسے ہر خوشی اور راحت اپنے درد کے آگے ہیچ لگتی ہے۔ ایک دانت کا درد ، باقی کے صحت مند دانتوں کی خوشی پر حاوی ہو جاتا ہے، بلکہ ہمیں اس سے پہلے کبھی اپنے دانتوں کے صحت مند ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا ہوتا نہ ہم نے کبھی دل سے اس کا اعتراف کر کے اللہ کا شکر ادا کیا ہوتا ہے کہ اس نے ہمیں ایسے مضبوط، خوبصورت اور صحت مند دانت دیے۔ غرض کوئی بھی تکلیف ہو تو اس کا اثر ہمارے پورے جسم پر پڑتا ہے، کمر، ٹانگ، گھٹنے، ٹخنے یا پاؤں کا درد جب ہمیں چلنے پھرنے یا معمول کے کام انجام دینے سے قاصر کر دیتا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سب کچھ کتنا اہم ہے۔

اندازہ کریں کہ اگر درد نہ ہوتا تو ہمیں زندگی کی بہت سی نعمتوں سے آگاہی ہی نہ ہوتی۔ درد اصل میں جسمانی نظام میں کسی بیرونی مداخلت کے احساس کا نام ہے۔ خوشی کی عدم دستیابی غم ہے، سکھ کا نہ ہونا ، دکھ ہے، بیماری… صحت کے نہ ہونے کو کہتے ہیں۔ بیماری، دکھ، بھوک اور درد ایسے احساسات ہیں، جنھیں ہم اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم خود اس سے نہ گزرے ہوں، دوسروں کو کہنا کہ ہمیں ان کے دکھ میں دکھ اور تکلیف میں تکلیف ہے… میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ اس وقت کس کیفیت سے گزر رہے ہیں، یہ سب رسمی فقرے ہیں، لیکن اگر آپ نے خود درد سہا ہو گا، کبھی دانت نکلوایا ہوگا ، کان کی تکلیف سے رات بھر جاگے اور بے چین رہے ہوں گے، کمر کے درد سے بستر پر لیٹنا تک عذاب ہوا ہو گا، پیٹ میں بھوک سے مروڑ اٹھے ہوں گے، کسی کی موت کا دکھ برداشت کیا ہوگا، آپ کا کوئی پیارا آپ سے بچھڑا ہو گا، کسی کے جانے سے آپ کے حلق میں پھندے پڑے ہوں گے۔

آپ نے کسی کی بے وفائی کا دکھ برداشت کیا ہو گا، اولاد کی کج ادائی سہی ہو گی، کسی کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے ہوئے ، خود کو بے بس محسوس کیا ہو گا ، کبھی کسی حادثے کا شکار ہوئے ہوں گے … تو آپ کو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ آپ کے سامنے بیٹھا شخص کس تکلیف میں ہے۔ دوسرے کے درد کو سمجھنے کے لیے، خود درد اور شدید درد کے احساس سے گزرنا بہت ضروری ہے۔

دماغ ہمارے جسم کا ایک سب سے اہم عضو ہے جس کے تحت ساری مشین اپنے معمول سے چپ چاپ کام کر رہی ہوتی ہے۔ سمجھ لیں کہ یہ جسم کے نظام کا مرکز ہے، سب سے اہم پرزہ ہے۔ جسمانی طور پر ہر لاحق خطرات سے بھی آگاہ کرتا ہے ، گرنے کی صورت میں ہمارے باقی جسم کو فوراً خبردار کرتا ہے کہ ہم خود کو زیاد نقصان سے بچا سکتے ہیں، کسی دوسرے کو گرتے ہوئے دیکھیں تو لا شعوری طور پر ہم اس کی طرف لپکتے ہیں کہ ہم اسے بچا سکیں ۔ کسی حادثے کی صورت میں ہمیں اس مقام سے فوراً ہٹ جانے کا اشارہ کرتا ہے۔ نہ صرف جسمانی طور پر، بلکہ روحانی طور پر بھی ہمیں خطرات سے آگاہ کرتا ہے، اچھائی اور برائی کے فرق سمجھاتا ہے، ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم اپنے لیے کون سی راہ متعین کریں، کسی اور کو بھی برائی کرتے ہوئے دیکھیں تو اسے منع کرتے ہیں، کوئی بھٹکا ہوا ہو تو اسے سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حدیث شریف ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ہمارے لیے قرآن اور حدیث میں جو تشبیہات، استعارے اور کنائے استعمال کیے گئے ہیں، وہ ہماری سوچ اور تحریر کی نسبت، بہت گہرا مطلب لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ جیسے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دینا… جوں جوں ہم اس پر سوچیں اور گہرائی میں جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فقرہ معنی و مطالب کے کتنے دریا لیے ہوئے ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح کہنا کہ ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے۔ جسم، ہمارے لیے اپنی اہم ترین اور قیمتی ترین ملکیت ہے… سو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کے لیے اہم ترین قرار دیا گیا ہے۔

عام حالات میں، اگر سب ٹھیک چل رہا ہو تو شاید اس جسم کے کسی حصے کو دوسرے کے ہونے کا احساس بھی نہ ہو اور نہ ہی کسی کی مدد کی ضرورت، ہاں اگر کوئی حصہ تکلیف میں آ جائے… اس کے لیے پھر سرحدیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ، آپ کے جسم کا عضو ہونا اہم ہے، مسلمان ہونا اہم ہے، خواہ وہ کشمیر میں ہو، بوسنیا میں، افغانستان میں، شام، یمن، نیوزی لینڈ، برما، ہندوستان، ایران، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، چین، جاپان، ایران، اٹلی، اسپین، ڈنمارک… خواہ دنیا کا کوئی بھی حصہ!!! یہ نہیں کہا گیا کہ صرف تمہارے خاندان کے مسلمان، تمہارے مسلمان دوست، مسلمان ہمسائے، محلے دار یا تمہارے ملک کے مسلمان… اس درد کا احساس تمہیں دنیا کے ہر مسلمان کے لیے ہونا چاہیے، ہر اس مسلمان کے لیے جو کہ درد میں مبتلا ہے۔ عام حالات میں ہم اپنی زندگیوں کو گزارنے کی جدوجہد کسی نہ کسی طرح تنہا کر ہی رہے ہوتے ہیں ، لیکن جب حالات عام نہ رہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی حصہ درد میں مبتلا ہو جائے…جس طرح ہم اپنے جسم کے درد کو محسوس کرتے ہیں، یہ درد ہمارا سکھ ، چین اور نیند چھین لیتا ہے اسی طرح اپنے مسلمان بھائی ، جو کہ ہمارے لیے اسی طرح ہے جیسے کہ ہمارے جسم کا حصہ، تو اس کے درد کو بھی محسوس کریں اور اسے درد میں دیکھ کر چین سے نہ رہیں نہ سکون کی نیند سوئیں۔

حتی المقدور اس کی مدد کریں ، اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو کمزور ترین عمل یہ ہے کہ اسے درد میں مبتلا کرنے والے کو برا کہیں، کہہ بھی نہ سکیں تو دل سے اسے برا سمجھیں اور اسے روکنے کے لیے اپنی حیثیت میں جو کچھ بھی کر سکیں وہ کریں … خواہ وہ عمل نار نمرود کو بجھانے کے لیے اپنی اپنی چونچوں میں پانی کا ایک ایک قطرہ لانیوالی ننھی چڑیوں کی مانند ہو یا ابرہہ کے لشکر پر کنکریاں برسانیوالی ابابیلوں جیسا عمل ۔

ہمارا کوئی مسلمان بھائی تکلیف میں ہو، بے سہارا ہو، غریب ہو، بھوکا ہو، محتاج ہو یا ظلم کا شکار ہو… پھر بھی ہمیں سکون محسوس ہو، بے چینی نہ ہو، بے فکری والی نیند بھی آ جاتی ہو، ہمیں اس کی تکلیف کا احساس نہ ہو تو چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔