- سندھ بھر میں سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے پر پابندی عائد، مقدمہ درج کرنے کا حکم
- چند صارفین کی عدم ادائیگی پر سب کی بجلی منقطع کرنے والوں کیخلاف ایکشن ہوگا، ناصر شاہ
- ججز کو دھمکی آمیز خطوط؛ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا
- آئی پی ایل: آؤٹ دینے پر امپائر سے بحث، ویرات کوہلی پر جرمانہ عائد
- بلوچستان میں پہلی ایئرایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان
- ہانگ کانگ اور سنگاپور میں دو بھارتی برانڈز کے مصالحوں پر پابندی عائد
- مالدیپ میں بھارت مخالف پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں میدان مارلیا
- جمشید دستی اور اقبال خان کی رکنیت بحال، ایوان میں داخلے کی اجازت مل گئی
- دہشت گردی کے خاتمے کیلیے بات چیت کا راستہ اپنانے کی حمایت کرتے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی
- ایف بی آر کے مغوی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو تاوان نہ دینے پر قتل کرنے والا گینگ گرفتار
- ضمنی الیکشن دھاندلی زدہ تھے، بے نقاب کرنے والے صحافیوں پر تشدد کیا گیا، عمر ایوب
- اسرائیلی بمباری میں حاملہ خاتون شہید؛ بچہ معجزانہ طور پر محفوظ
- وزیراعظم شہباز شریف کی فارسی میں گفتگو پر ایرانی صدر خوشگوار حیرت میں مبتلا
- کراچی میں سات روز کیلئے ڈرون کیمرے کے استعمال پر پابندی عائد
- پنجاب میں 50 ہزار گھرانوں کو سولر سسٹم فراہم کیے جائیں گے
- چینی سائنسدانوں نے پھولوں کی مدد سے دنیا کا پہلا ہیرا تیار کرلیا
- موجودہ دور کے گانوں میں کم ذخیرہ الفاظ اور تکرار زیادہ ہے، تحقیق
- وٹامن K کا ذیابیطس کیخلاف مزاحمتی کردار دریافت
- سندھ حکومت کا پنک بس سروس کا کرایہ دو ماہ کیلیے معاف کرنے کا اعلان
- کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے، چیف جسٹس
ابن صفی کی یاد
میں نے 16 مئی 2019 کی شام کو طارق کے ووڈلینڈ، ہیوسٹن کے مکان کی لائبریری کی ایک الماری کھولی تو ایک قطار میں رکھے جاسوسی ناولوں کو دیکھ کر مارٹن کوارٹر نمبر 195/3 کراچی کے کمرے کی ایک کرسی یاد آ گئی جہاں آٹھویں کلاس گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ کے طالبعلم کے ہاتھ میں ابن صفی کا لکھا ہوا جاسوسی ناول ہوا کرتا تھا اور وہ اردگرد سے بے خبر ناول پڑھنے میں منہمک ہوتا۔
گرمیوں کی چھٹیاں اپنی بہن کے گھر گزارنے سیالکوٹ سے کراچی گیا ہوا وہ بچہ میں ہی تھا۔ اسکول سے ملا ہوم ورک کرنے اور گلی محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد میں اپنی ایک آنہ پاکٹ منی کو جیب میں ٹٹول کر قریبی لائبریری سے عمران سیریز کا جاسوسی ناول لاتا اور ایک مخصوص کرسی سنبھال لیتا جسے اس وقت چھوڑتا جب ابن صفی کے ناول کی لذت مجھے سرشار کر چکی ہوتی۔
آٹھویں کلاس سے عمران سیریز اور جاسوسی دنیا سے قائم ہونے والا تعلق کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہونے تک بلاتعطل قائم رہا لیکن پھر مصروفیات زمانہ اور غم روزگار نے ابن صفی سے رابطہ پس پشت ڈال دیا۔ جب میں نے پیسہ یا پھر آنہ لائبریری سے رشتہ قائم کیا تھا تو ابن صفی کی کتابیں الٰہ آباد سے شائع ہوتی تھیں اور تب وہ بھی انڈیا ہی میں رہتے تھے اور پھر وہ کراچی منتقل ہوئے تو ایک دو جعلی عمران اور جاسوسی دنیا کے مصنف بھی میدان میں آئے لیکن کہاں ابن صفی اور کہاں جعلساز۔
ابن صفی کی جاسوسی کتب کے کردار ان کی کتب سے محبت کرنیوالوں کے فیملی ممبر بن کر ان کے ذہنوں میں رہتے اور ان کی الماریوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ جب طویل عرصہ کے بعد ابن صفی کے ناول میری الماری سے غائب ہونے شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ انھوں نے صرف کمرہ بدلا ہے اور خوشی ہوئی کہ بہت سے نایاب نسخے طارق کی امریکا والی الماری میں موجود ہیں بلکہ تعداد میں بھی کئی گنا زیادہ اور بہتر حالات میں رکھے ملتے ہیں۔
ایک دلچسپ بات کا ذکر کروں کہ کئی نامور ادیب اور دانشور اپنی محفلوں اور گفتگو میں ابن صفی کا ذکر اسلیے نہیں کرتے کہ وہ اسے وہ مقام دینے سے کتراتے ہیں جو اس کے پاس بلاشبہ ہے پھر ایک اور بات کہ یہ بزعم خود بلند مقام وہ رائٹر ہیں جن کی کتب کے ایک یا دو ایڈیشن چھپے ہونگے جب کہ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کے ایڈیشن اس کی وفات کے 39 سال کے بعد بھی آج تک چھپتے چلے جا رہے ہیں اور ہر پبلشر انھیں بغیر اجازت شائع کرتا پایا جاتا ہے جب کہ نامور ادیبوں نے ابن صفی کی بیشتر کتب پڑھ رکھی ہیں۔
ابن صفی جن کا اصل نام اسرار احمد ہے، 1928 میں الٰہ آباد انڈیا میں پیدا ہوئے۔ انھیں اسکول کے دنوں ہی سے ادبی ذوق وشوق تھا۔ شروع میں انھوں نے شاعری سے تعلق رکھا اور اسرار ناروی کے نام سے غزل گوئی کرتے رہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں مقامی رسائل میں چھپتی رہیں۔ چوبیس سال کی عمر میں انھوں نے پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ کے نام سے جاسوسی کی دنیا کے لیے لکھا جو اس سیریز کا پہلا ناول تھا۔ وہ تقسیم ہند سے پہلے ہی اپنی دو سیریز جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے نام سے شروع کر کے ہندوپاک کے ہردلعزیز جاسوسی ناول نگاروں کے مصنف کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔
ان کے ناول الٰہ آباد ہی میں چھپتے اور دونوں ملکوں میں پڑھے جاتے۔ عمران سیریز سے شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ بھی انھی دنوں الٰہ آباد سے شائع ہوا جو پاکستان کے بُک اسٹالز اور لائبریریوں میں دستیاب تھا۔ 1956 کے اسکولوں کی موسم گرما کی چھٹیوں کے دن تھے جب کراچی میں مجھے ابن صفی کا ناؤل مارٹن کوارٹرز کی مارکیٹ کی ایک لائبریری میں ملا اور پھر عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے ناول آیندہ کئی دہائیوں تک باقاعدگی سے میرے زیرمطالعہ رہے۔
اگر آج بھی کوئی ان کے لکھے ہوئے ناول خریدنا چاہے تو اردو بازار لاہور کا چکر لگا لے جہاں ان کی دونوں سیریز کی پہلے ناول سے ان کے آخری ناول تک کی ناقص اور اعلیٰ کوالٹی کی پبلش ہوئی کتب موجود ہیں۔ ابن صفی نے 1950 میں اپنی دونوں کتب کو اکٹھا کر کے اسرار پبلی کیشنز کے نام سے ادارہ قائم کر لیا تھا۔ انھوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے 124 اور عمران سیریز کے نام سے 120 یعنی کل 244 ناول لکھے۔ پہلے ناول کی اشاعت سے وفات تک 40 سال میں اڑھائی سو کے قریب کتب لکھ لینا اور وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک، ناولسٹ کے کمال کی مثال ہے۔
وقت گزرنے اور رائٹر کے گزر جانے کے 39 سال بعد اور پڑھنے والوں کی دلچسپیوں میں تبدیلی کے ساتھ کتب کی اشاعت یعنی ایڈیشنز میں کمی واقع ہو جاتی ہے لیکن زندہ کتابوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ویسے دنیا میں بہت سے نامور ادیبوں کی زندہ کتب کی بیشمار مثالیں موجود ہیں جو اس دنیا سے گزر جانیوالوں کو اپنی ادبی اور سائنسی تخلیقات کے ذریعے صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ابن صفی کی کتب جو یہاں طارق کی الماری میں دیکھیں، ان کے نام پڑھ کر یاد آیا کہ انھیں پاکستان میں کئی لوگوں کی ذاتی لائبریریوں میں بھی دیکھا ہے۔ چند ایک کے نام جو Telly ہوتے نظر آئے، یہ تھے، دلیر مجرم، شفق کے پجاری، ہیروں کا فریب، نیلی روشنی، آسیبی دنیا، بد روح، بھیانک آدمی، سرخ قیامت، پاور پلے، کالی تصویر۔
ابن صفی کی تصنیفات کو اگر انگریزی الفاظ میں بیان کیا جائے کہ ان میں دلچسپی کی کیا چیزیں پائی جاتی ہیں تو وہ ہیں Mystery، Adventure، Suspence اور Violence ایک ہی ناول میں دلچسپ انداز میں ان چار کا ملاپ پڑھنے والے کو کہانی میں Absorb کر لیتا ہے اور وقتی تفریح مہیا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی اشاعت قائم ہے۔ اسی لیے جب سے Huston آنا ہوا ہے ایک ناول روزانہ پڑھتے ہوئے اسکول کی گرمیوں کی چھٹیاں اور آٹھویں جماعت کا زمانہ یاد آ کر دستک دے کر چہرے کو مسکراہٹ سے روشن کر دیتا ہے اور کبھی نہیں کہتا کہ:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔