انسان ناقابل شکست ہے  (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 19 مئ 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

علی سردار جعفری کی شہرت شاعری سے ہوئی لیکن ان کی نثر پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نثر میں بھی شاعری کرتے تھے اور ہمارے کتنے اہم دانشور تھے۔ وہ پہلی جنگ عظیم کی دہلیز پر پیدا ہوئے، بڑے ہوئے تو ہزاروں میل دور لڑی جانے والی اس جنگ کے اثرات گائوں، دیہات اور قصبوں میں پھیلے ہوئے تھے، خوشحال گھرانے بھی جنگ کے تلخ حالات سے دوچار ہوئے تھے لیکن یہ جنگ غریبوں کو بالکل ہی برباد کرگئی تھی ۔

جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے چھینٹے کم سنی کے باوجود علی سردار کے دامن تک آئے۔ تحریک آزادی کی چنگاری شعلہ بن رہی تھی اور غلامی کے اندھیرے میں نوجوانوں کو نیا راستہ دکھا رہی تھی۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں سے ’’تین پائو گندھا ہوا آٹا ‘‘ اس لیے اہم ہے کہ یہ افسانہ ترقی پسندی کی طرف ان کی اڑان کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ جدید تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجے گئے لیکن وہاں سے ہڑتال میں حصہ لینے اور تقریر کرنے کے جرم میں نکالے گئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی دلی اور لکھنٔو کے تعلیمی اداروں میں گزری۔ انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار ہوئے اور یہیں وہ ترقی پسندی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ انھوں نے ’’لکھنٔو کی پانچ راتیں‘‘ لکھیں۔ جس کا تفصیلی ذکر کہکشاں عرفان نے کیا ہے۔

انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی افسانہ نگاری سے شروع کی۔ ڈرامے تحریرکیے۔ ان ڈراموں اور افسانوں میں ہمیں قحط بنگال کی خوں رنگ جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی رواں اور دل میں اتر جانے والی نثرکی خوبصورت مثال۔ وہ ترقی پسند تحریک کے بین الاقوامی رشتے کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’جب ملایا اور برما کے عوام بیدار ہوتے ہیں تو امریکا میں ربر اور تیل کے تاجروں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ جب نیویارک میں سونے کا بھائو بڑھتا ہے تو ہندوستان کے دور دراز گائوں میں غلہ مہنگا ہو جاتا ہے۔

دوسری عالم گیر جنگ چھڑتی ہے تو بمبئی میں چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں اور بنگال میں چاول نایاب ہو جاتا ہے اور پینتیس لاکھ آدمی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ امریکا کا ہاورڈ فائوسٹ ہمارے لیے کہانیاں لکھ رہا ہے۔ حبشی موسیقار پال رابنسن ہمارے لیے گیت گا رہا ہے اور ترکی کی جیل میں بیٹھا ہوا ناظم حکمت کلکتہ میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہونیو الے کسی بینرجی کے ساتھ اظہار ہمدردی کر رہا ہے۔ یہ زندہ اور حقیقی جذبات اور آزادی کے تصورات ہیں۔ جن کی راہ میں پہاڑ اور دریا، سمندر اور ریگستان حائل نہیں ہوسکتے۔‘‘ ان کی رواں نثرکے ساتھ ہی ان کی سیاسی بصیرت کو داد دینی ہی پڑتی ہے۔

علی سردار جعفری نے ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے بعد ’’اقبال شناسی‘‘ اور ’’پیغمبران سخن‘‘ جیسی کتابیں لکھیں اور لوگوں سے یہ منوایا کہ وہ نثر میں کیسی نئی راہ نکالتے ہیں۔ انھوں نے کرشن چندر کے افسانوی مجموعے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ اس میں اس شورش کی خبر ہے جس نے برصغیر کے انسان دوست لوگوں کو اپنی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ علی سردار قیامت کی اس گھڑی میں ادیبوں کو ان کے فرائض یاد دلاتے ہیں۔

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے ادیب جاگ رہے ہیں اور اس وحشت و درندگی اور روح کے گھنائونے پن کو محسوس کر رہے ہیں۔ جس نے ہندوستانی زندگی کو روگ لگا دیا ہے۔ بمبئی کے ادیبوں اور فنکاروں نے امن کا جلوس نکالا۔ پاکستان کے ادیب اپنی کانفرنس کر رہے ہیں۔ لیکن اکثریت کی زبانیں ابھی تک گنگ ہیں۔ ان کے قلم خاموش ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اوپیندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی، احمد عباس، کیفی اعظمی، یوسف ظفر، فکر تونسوی اور کرشن چندر کے علاوہ کسی ادیب نے فساد پر قلم نہیں اٹھایا ہے۔ اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ لیکن کافی نہیں ہے۔ یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے برابر ہے۔ غنڈوں کے چھرے قلم سے زیادہ تیز چل رہے ہیں۔ ان کی بندوقوں کی آوازیں شاعروں کی آواز سے زیادہ بلند ہیں۔ انسانی خون کا سیلاب ان ادب پاروں کو بہا لے جائے گا۔‘‘

1948 میں منٹو کے مجموعے ’’چغد‘‘ کے بارے میںوہ لکھتے ہیں۔ ’’منٹو نے سماج کی گندگی کو دیکھا ہے۔ وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ اس میں سماج اور سیاسی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کی قوت ہے۔ منٹو کی افسانہ نگاری ہندوستان کے درمیانی طبقے کے مجرم ضمیر کی فریاد ہے۔ اسی لیے منٹو اردو کا سب سے زیادہ بد نام افسانہ نگارہے اور وہ بد نامی جو منٹو کو نصیب ہوئی ہے مقبولیت اور شہرت کی طرح صرف کوشش سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے فن کار میں اصل جوہر ہونا چاہیے۔ اور منٹو کا جوہر اس کے قلم کی نوک پر نگینے کی طرح چمکتا ہے۔‘‘

تلنگانہ میں چلنے والی تحریک کے بارے میں کرشن چندر نے ایک ناول ’’جب کھیت جاگے‘‘ لکھا۔ علی سردار نے اس ناول کے ابتدائیہ میں کہا: ’’کرشن چندر اردو کا سب سے بلند قامت افسانہ نگار ہے۔ وہ کسی دیباچے یا تقریظ کا محتاج نہیں۔ کرشن چندر کی نثر پر مجھے رشک آتاہے۔ وہ بے ایمان شاعر ہے جو افسانہ نگار کا روپ دھار کر آتا ہے اور بڑی بڑی محفلوں اور مشاعروں میں ہم سب ترقی پسند شاعروں کو شرمندہ کر کے چلا جاتاہے۔‘‘

انھوں نے خمار بارہ بنکوی، پروین شاکر، پروین فنا سید، کیفی اعظمی، عشرت آفریں اورکئی دوسرے شاعروں کے مجموعہ کلام پر دیباچے لکھے۔ یہ دیباچے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ انھیں نثر نویسی پر کیسا ملکہ حاصل تھا۔ انھیں ترک شاعر ناظم حکمت اور ہسپانوی شاعر پابلونرودا سے والہانہ وابستگی تھی۔ نرودا کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’مجھے نرودا کے چہرے میں ایک ایسی کیفیت نظر آئی جیسے گوتم بدھ کا کوئی تراشا ہوا مجسمہ ہو۔ پابلو نرودا ایک کھوئی ہوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانیہ کی زبان کا سب سے بڑا شاعر اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین، مترنم اور اتنی ہی انقلابی ہے۔ چلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہر شخص اسے جانتا ہے کسی زمانے میں اس کے سرپر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پرشہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلودہ لہجے میں بات کرتا ہے۔ جیسے دور کہیں پانی برس رہا ہو، صنوبر اور چیڑکے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔ ‘‘

علی سردار جعفری نے اپنی صحافیانہ زندگی کی ابتداء ’’ہم صفیر‘‘ سے کی جو ان کے بڑے بھائی نکالتے تھے۔ اس کے بعد ’’نیا ادب‘‘ ’’قومی جنگ‘‘ اور آخری دنوں میں ضخیم مجلہ ’’گفتگو‘‘ شائع کیا۔ اس کے مدیر رہے۔ یہ ان کا آخری جہاد تھا جو انھوں نے قلم سے کیا۔ وہ ایک ایسے نوجوان ترقی پسند تھے جس نے بوڑھے غالبؔ کی اس تقریظ کو نشانِ راہ بنایا جس میں وہ نوجوان سید احمد کو جدید روشنی سے اپنا چراغ جلانے کی تلقین کر رہے تھے۔ وہ ’’میر ا نعرہ روٹی اور کتاب‘‘ میں مسجدوں پر لکھتے ہیں تو دل سے بے ساختہ داد نکلتی ہے۔

’’ مسجد کے گنبد پرشام کی سرمئی اور گلابی روشنی میں کنول کا پھول مسکرا رہا تھا۔ یہ پھول چار پانچ سو برس کا سفر طے کرکے مسجد کے گنبد تک پہنچا ہے۔ اور ہندو، بودھ اور مسلم اتحاد باہمی کی خوبصورت علامت ہے۔ زمانہ ما قبل تاریخ میں یہ دھان کے کھیتوں، تالابوں اور مچھلیوں میں نظر آتا تھا۔ پھر لکشمی کے بازو کی آرائش بن کر ظاہر ہوا۔ اجنتا کی دیوار پر ایک بدھسٹ کے ہاتھ میں مسکرا رہا ہے ادب اور آرٹسٹ کی دنیا میں یہ پیروں، ہاتھوں اور آنکھوں کا استعارہ ہے۔ بودھ وہاروں سے ہوتا ہوا یہ صوفیوں کی درگاہوں میں سامان آرائش بنا اور مسجد کے محرابوں اور گنبدوں کو سجانے سنوارنے کے کام آیا۔

ہمایوں کے مقبرہ کا گنبد جس پر کنول کا پھول نہیں ہے اتنا خوبصورت نہیں جتنا تاج محل کا گنبد یا دلی کی جامع مسجد کے گنبد۔ ہندوستانی مسجد کے گنبد ایران، عراق اور عرب ممالک کے گنبدوں سے مختلف ہیں۔ ان کا مزاج ہندوستانی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کنول کا پھول اپنی لطافت، نزاکت، پاکیزگی اور شرافت کے ساتھ مسکراتا رہے گا یا نیو کلیئر جنگ کے شعلوں میں جھلس کر راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔ میں اس خیال سے خوفزدہ ہوں کہ خدانخواستہ نیوکلیئر جنگ ہوئی تو کیا ہوگا۔ میری پرورش اور تربیت ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس میں روز قیامت یوم حساب پر یقین ایمان کا جز سمجھا جاتا ہے۔

کسی کو نہیں معلوم کی قیامت کب آئے گی مگر جب آئے گی تو پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ جائیں گے اور سورج اپنی بلندی سے نیچے اتر کر سوا نیزے کے فاصلے پر آجاے گا۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا نیوکلیئر جنگ اس سے کم بھیانک ہوگی؟ پرانے زمانے کے حکمران اپنے زمانے کے سنتوں، صوفیوں اور شاعروں سے نصیحت حاصل کرتے تھے۔ ہمارے پردھان منتری اٹل بہاری باجپائی کو باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے ان کے سینے میں ان کا شاعر دوست بیٹھا ہوا ہے۔‘‘ ایسی خوبصورت اور بامعنی نثر علی سردار جعفری ہی لکھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔