بے جان بولنگ اورناقص فیلڈنگ، پاکستان کی ورلڈ کپ مہم کمزور نظر آنے لگی

میاں اصغر سلیمی  اتوار 19 مئ 2019
قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے میگا ایونٹ کے لئے فیورٹ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوٹو: فائل

قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے میگا ایونٹ کے لئے فیورٹ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوٹو: فائل

عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا، اگر ان کی حکومت میں بھی گرین شرٹس کی انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ میںکارکردگی مایوس کن رہی ، تو آپ کو کیسا لگے گا۔

کرکٹ کے ایک پرستار نے جب یہ بات مجھے کہی تو میرا پہلا جواب تو یہی تھا کہ مایوسی گناہ ہے اور انگلینڈ کے خلاف جاری ایک روزہ سیریز میں پاکستانی بیٹسمین بالخصوص بابراعظم، فخرزمان اور امام الحق جس بہادری اور دیدہ دلیری سے انگلش کنڈیشنز میں مہمان بولرز کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ کوئی عام بات نہیں ہے، لیکن وہ پرستار بھی شاید ہمت ہارنے والا نہیں تھا، بولایہ درست ہے کہ عرصہ دراز کے بعد پاکستانی بیٹسمینوں نے اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے طویل اننگز کھیلنے کا آغاز کر رکھا ہے لیکن ہمیں یہ بات کسی صورت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ماضی میں پاکستان ٹیم کی اصل طاقت اس کا بولنگ کا شعبہ رہا ہے۔

عمران خان، سرفراز نواز، وسیم اکرم، وقار یونس ، شعیب اختر، عبدالقادر،ثقلین مشتاق، مشتاق احمد،سعید اجمل سمیت ایسے بولرزکی فہرست طویل ہے جو اپنے غیر معمولی بولنگ سے قومی ٹیم کی فتوحات میں حصہ ڈالتے رہے ہیں۔دنیائے کرکٹ کے ایک بہت بڑاے نام عمران خان خود بولنگ کے شعبے پر زیادہ انحصار کرتے تھے، ان کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ ٹیم کی بولنگ لائن مضبوط کر لو، میچ جیت جاؤ گے، عمران خان کی نظر میں بولرز کے پاس تو غلطی کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن بیٹسمین بیٹنگ کے دوران کسی غلطی کا متحمل نہیں ہوسکتا، بولر کی کوئی ایک اچھی گیند دنیا کے بڑے سے بڑے بیٹسمین کو پویلین کا راستہ دکھا سکتی ہے۔

ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کے موجودہ سکواڈ کو حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس بار گرین شرٹس کا بولنگ کاشعبہ خاصا کمزور ہے،انضمام الحق کی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی نے جن بولرزپر اعتماد کیا، ان میں زیادہ تر انگلینڈ کے خلاف واحد ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

چیف سلیکٹر نے ورلڈ کپ کے سکواڈ کا اعلان کرتے ہوئے فہیم اشرف کو آل راؤنڈر کم فاسٹ بولر زیادہ قرار دیا تھا لیکن وہ اب تک کے میچوں میں صلاحیتو ں کا اظہار کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں،اس لئے شاید ان کو ڈراپ کر کے آصف علی کو سکواڈ کا حصہ بنانے کی تجویز قابل غور ہے۔

اسی طرح محمدحسنین کو ٹی ٹوئنٹی میچ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا لیکن150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کرنے والے پیسر 29رنز دے کر کوئی بھی وکٹ حاصل نہ کر سکے تاہم ایک روزہ سیریز کے چوتھے میچ میں وہ 2وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ضرور رہے، انہیں ورلڈ کپ کا حصہ بنا کر سلیکٹرز نے کچھ جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح شاہین آفریدی اورحسن علی بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔حسن علی کو دوسرے ایک روزہ میچ میں 81 جبکہ شاہین آفریدی کو 80 رنز پڑے۔

شاہین آفریدی تیسرے میچ میں ایک بار پھر خاصے مہنگے بولر ثابت ہوئے اور ان کو 83 رنز پڑے، حسن علی کی بولنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کپتان نے ان سے پورے دس اوورز کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور ان کی بولنگ کو صرف8 اوورز تک ہی محدود رکھا۔ چوتھے میچ میں شاہین آفریدی کو تو باہر بٹھا دیا گیا تاہم حسن علی ایک بار پھر امیدوں پر پورا نہ اتر سکے اور ان کے 57رنز کے عوض جان چھوٹی۔

فاسٹ بولر محمد عامر کو اب تک کسی بھی میچ میں ٹرائی نہیں کیا گیا،چیچک کی بیماری کی وجہ سے انہیں ٹیم سے الگ بھی کر دیا گیا ہے تاہم شاہین آفریدی سمیت دوسرے فاسٹ بولرز کی مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ورلڈ کپ کے حتمی سکواڈ میں جگہ دی جا سکتی ہے۔

محمد عامر کا ستارہ بدستور گردش میں ہے اور وہ گزشتہ ایک سال میں بولنگ کے شعبے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ محمد عامر اگر بیماری سے چھٹکارا پانے کے بعد ورلڈ کپ سکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو کیاایک بیمار اور آؤٹ آف فارم بولر ورلڈ کپ کے دوران ایسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو بھی سکے گا جس کا مجموعی طور پر فائدہ قومی ٹیم کو ہو،یہ ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا جواب کے لئے شائقین کو مزید کچھ دن اور انتظار کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں اس وقت150کی رفتار سے بولنگ کرنے والے 2بولرز وہاب ریاض اور محمد سمیع ہیں، وہاب ریاض پی ایس ایل اور پاکستان ون ڈے کپ کے بہترین بولرز میں شامل تھے، بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے دوران بھی پیسر کی بولنگ نمایاں رہی۔اسی طرح محمد سمیع نے پی ایس ایل کے چوتھے ایڈیشن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی قیادت کی اور اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچانے میں کامیاب رہے،دونوں تجربہ کار بولرز بالخصوص ان فارم وہاب ریاض کو ورلڈ کپ کے سکواڈ میں شامل نہ کرنا کم از کم میری سمجھ سے تو بالا ترہے۔

اسی طرح طویل قامت محمد عرفان کو ورلڈ کپ کے سکواڈ میں جگہ دی جاتی تو وہ انگلش کنڈیشنز میں دنیا بھر کی ٹیموں کے بیٹسمینوں کے لئے خطرناک بولر ثابت ہو سکتے تھے۔سلیکٹرز نے ورلڈ کپ کے لئے جن بولرز کا انتخاب کیا ہے، وہ اپنی جگہ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ انگلینڈ میں موجود پاکستان ٹیم کے بولنگ کوچ اظہر محمود او ر دوسرا سٹاف ادھر کیا کر رہا ہے جو بولرز کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر سکے۔

اب تک کے ہونے والے میچز میں دیکھنے میں آیاہے کہ بولرز اپنی غلطیوں کو بار بار دہرا رہے ہیں لیکن ان کی غلطیوں کو درست کرنے والا شاید کوئی نہیں، اگر بولرز نے اسی طرح کی فاش غلطیاں بار بارہی کرنی ہیں تو بھاری معاوضوں پر کوچز کی فوج ظفر فوج پالنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟

پاکستانی ٹیم کی بولنگ میں سپنرز کا بڑا اہم کردار رہا ہے لیکن انگلینڈ کے خلاف سیریز میں یہ شعبہ بھی اب تک قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے۔بلاشبہ شاداب خان کا شمار دنیا کے بہترین سپنرز میں ہوتا ہے لیکن ہیپاٹائٹس کے مرض کی وجہ سے قومی ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، گوصحت یابی کے بعد شاداب خان انگلینڈ میں موجود ہیں لیکن خطرناک بیماری سے جنگ لڑنے والے شاداب خان کیا اس قابل بھی ہیں کہ وہ ماضی کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ ورلڈ کپ کے دوران بھی کر سکیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا شخص صحت یابی کے بعد بھی خاصی کمزوری اور نقاہت محسوس کرتا ہے اور اسے روٹین کی لائف میں آنے کے لئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔

ورلڈ کپ میں شاداب خان کا صحت یابی کے بعد غیر معمولی بولنگ کروانا بھی ان کا ایک طور پر بڑاامتحان ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ دونوں محاذوں پر عوامی توقعات پر کتنا اور کس قدر پورا ترنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سلیکٹرز نے توقعات کے برعکس ورلڈ کپ میں یاسر شاہ کو سکواڈ کا حصہ بنایا گیاتو سلیکشن کمیٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا ماہرین کا خیال تھا کہ ٹیسٹ میں اپنی کارکردگی سے دھاک بٹھانے والے لیگ سپنر ایک روزہ کرکٹ میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گے،اور ایسا ہی ہوا، انگلینڈ کے خلاف میچز کے دوران لیگ سپنر بری طرح ناکام رہے ہیں، اسی وجہ سے شاید انہیں وطن واپس بلائے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

بڑی فکر مندی کی ایک بات ناقص فیلڈنگ ہے، انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران کھلاڑی اہم مواقع پر کیچزگرانے کے ساتھ کئی باؤنڈریز بھی روکنے میں ناکام رہے، جہاں سنگل بننا تھی وہاں دو رنز بنوا دیئے، صرف سیریز کے چوتھے میچ میں ہی20 سے زائد رنز غیر معیاری فیلڈنگ کی وجہ سے بنے۔

ورلڈ کپ کا باقاعدہ نقارہ 30 مئی کو بجے گا،دفاعی چمپئن آسٹریلیا سمیت میگا ایونٹ کا حصہ بننے والی تمام ٹیمیں 12ویں عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔

قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے میگا ایونٹ کے لئے فیورٹ تو قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم پاکستانی ٹیم کے لئے یہ بات مشہور ہے کہ یہ ایسی ٹیم ہے جو کسی بھی وقت کوئی بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔