پاکستان فٹبال مسائل کے جال میں الجھ گیا

عباس رضا  اتوار 19 مئ 2019
متنازعہ صورتحال میں کھیل اور کھلاڑیوں کا نقصان۔ فوٹو: فائل

متنازعہ صورتحال میں کھیل اور کھلاڑیوں کا نقصان۔ فوٹو: فائل

کھیل معاشرے میں صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کی قدر کرتے ہوئے سپورٹس کلچر کو فروغ دینے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جاتا ہے۔

دنیا کے بیشتر ملکوں میں فٹبال کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے،عالمگیر مقبولیت کی وجہ سے یہ کھیل معاشروں کی سماجی قدروں میں شامل ہوچکا، اس کی سرگرمیوں سے کروڑوں افراد کا روزگار وابستہ اور کھربوں ڈالر کا سرمایہ گردش میں آتا ہے، اس لئے فٹبال کی معاشی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پاکستان میں فٹبالرز اور شائقین تو بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن سسٹم کے حوالے سے صورتحال خاصی حوصلہ شکن ہے۔

پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتظامی امور کے حوالے سے 2015 میں شروع ہونے والا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، پی ایف ایف کے الیکشن میں سید فیصل صالح حیات نے بطور صدر کامیابی حاصل کی، نتائج حکومتی حلقوں کو قابل قبول نہ تھے، فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے اس انتخاب کو تسلیم کیا لیکن حکومت کے کرتا دھرتا افراد کے ایما پر سید فیصل صالح حیات کی سربراہی میں قائم ہونے والی باڈی کو پی ایف ایف ہیڈ کوارٹرز سے رخصتی کا پروانہ تھما دیا گیا، پی ایف ایف میں بیرونی مداخلت کی بناپر فیفا نے پاکستان کی رکنیت معطل کر دی، ایک طویل عدالتی محاذ آرائی کے بعد بالآخر سید فیصل صالح حیات کو فیڈریشن کا صدر تسلیم کرلیا گیا اور پی ایف ایف ہیڈکوارٹرز کا کنٹرول دوبارہ ان کی سربراہی میں قائم باڈی کو حاصل ہوا، پاکستان کی فیفا میں رکنیت بھی بحال کر دی گئی۔

تنازع اور تعطل کے ساڑھے 3سال کے دوران ملک میں فٹبال کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں، سید فیصل صالح حیات کی بحالی بعد ایک بار پھر میدانوں کی رونقیں واپس آنے لگیں، فٹبال کے کھلاڑی، ریفریز و کوچز طویل عرصہ کے دوران ہونے والے نقصان کے ازالے کیلئے سرگرم ہوئے، قومی مینز اور ویمنز ٹیموں کی انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں شرکت کا سلسلہ بھی چل نکلا،فٹبالرز اور شائقین کی امیدوں کے چراغ روشن ہونے لگے تھے کہ عدالت نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کے دوبارہ انتخابات کا حکم جاری کردیا، گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے الیکشن میں سید فیصل صالح حیات نے شرکت نہیں کی، ان کا موقف تھا کہ ان انتخابات میں پی ایف ایف کے آئین کی پاسداری نہیں کی جارہی، اسی دوران فیفا اور اے ایف سی نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کو خطوط میں واضح کیا کہ عالمی برادری اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتی اور اس عمل کو تیسرے فریق کی جانب سے مداخلت تصور کیا جائے گا جس کے نتائج پاکستان کی معطلی کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اشفاق حسین کی سربراہی میں پی ایف ایف کی جو نئی باڈی تشکیل پائی تو اس کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا لیکن سید فیصل صالح حیات پاکستان کے نمائندہ کے طور پر ایشین فٹبال کنفیڈریشن کے انتخابات میں شریک ہوئے اور بلامقابلہ نائب صدر بھی منتخب ہو گئے، فیفا کی طرف سے تسلیم نہ کئے جانے کے باوجود اشفاق حسین اور ان کے حمایتیوں نے ورلڈکپ کوالیفائرز کیلئے تربیتی کیمپ کا اسلام آباد میں آغاز کیا جس کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا، اس باڈی کے تحت کوئی ٹیم عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی ہی نہیںکرسکتی تو بے دریغ فنڈز لٹانے کی کیا ضرورت ہے۔

دوسری جانب سید فیصل صالح حیات کے عالمی تنظیموں میں اثرورسوخ کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان ٹیم کی ورلڈکپ کوالیفائرز میں شرکت سے محرومی کا خطرہ ٹل گیا، برازیلی کوچ جوز انتونیو نوگیرا اور ان کے معاونین کے زیر نگرانی تربیتی کیمپ بحرین میں جاری اور اس میں شرکت کرنے والے کھلاڑی سید اشفاق حسین کی سربراہی میں کام کرنے والی پی ایف ایف کے زیرعتاب ہیں،کھلاڑیوں کو روکنے دھمکیاں دیئے جانے کی اطلاعات بھی میڈیا میں آچکی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اشفاق حسین اور ان کے ساتھیوں کو فٹبال ہاؤس اور اکاؤنٹس کا چارج تو مل گیا، ملک میں ایونٹس کروانے کی بھی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کا حاصل کچھ نہیں، موجودہ صورتحال میں امکان تو نہیں لیکن اگر بہترین ٹیم بھی بنالیں تو وہ عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی نہیں کرسکے گی۔ پاکستان میں فٹبال کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے فیفا اور اے ایف سی کا مشترکہ وفد رواں ماہ کے آخری ہفتے پاکستان آرہا ہے، فریقین کا دعویٰ ہے کہ وہ عالمی باڈیز کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی تنظیمیں سید فیصل صالح حیات کو مارچ 2020تک کام کرنے کا مینڈیٹ دینے کے بعد اب کس طرح قائل ہوں گی کہ اشفاق حسین کے سربراہی میں کام کرنے والی پی ایف ایف کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرلیا جائے۔اگر حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی تو ملکی فٹبال کے ایک مرتبہ پھر عالمی تنہائی کا شکار ہونے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا، فیفا اور اے ایف سی کی جانب سے معطل کئے جانے کا مطلب ہوگا کہ پاکستان فٹبال کو ملنے والی گرانٹ بند اور ٹیموں انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت پر پابندی ہوگی، ملکی ٹیلنٹ بین الاقوامی سطح پر صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھاپائے گا۔

اشفاق حسین گروپ کے چند افراد نے گزشتہ پریس کانفرنس میں برملا کہا کہ فیفا اور اے ایف سی نئی پی ایف ایف باڈی کو تسلیم نہ کریں تب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، یہ تاثر اس لئے درست نہیں کہ ماضی میں معطل ہونے والے کئی ملکوں کو بالآخر فیفا کا چارٹر تسلیم کرنا پڑا، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے معاملے میں بھی پاکستان حکومت کو بالآخر آئی او سی کی بات ماننا پڑ گئی تھی، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے،پیچیدہ صورتحال کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے، بات صرف سید فیصل صالح حیات کے ہونے یا نہ ہونے کی نہیں، پاکستان فٹبال کے مستقبل کی ہے جس کو فیفا سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، عالمی برادری سے الگ ہوکر پاکستان میں اس کھیل کا فروغ ممکن نہیں، عالمی تنہائی سے بچنے کیلئے حکومت کو کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔