بے جا توقعات اور فرمائشیں؛ اسلام آباد میں 16 ماہ کے دوران 414 خواتین نے خلع لے لی

نعیم اصغر  اتوار 19 مئ 2019
2019 کے پہلے 4 ماہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269 کیسز رجسٹر ہوئے فوٹو: فائل

2019 کے پہلے 4 ماہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269 کیسز رجسٹر ہوئے فوٹو: فائل

 اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ 16 ماہ کے دوران 1048 جوڑوں میں طلاقیں ہوئیں جن میں سے 414 خواتین نے خود خلع حاصل کی ہے۔

2018 کے دوران صرف اسلام آباد کے شہری علاقوں میں 779 طلاقیں رجسٹر ہوئیں، جن میں سے 316 خلع کے کیسز تھے جن میں خواتین نے عدالتوں سے ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے لیکن یہاں بھی میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہ ہوسکا اور بالآخر طلاق ہوگئی، اسی سال 427 مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔ 2019 کے پہلے 4 ماہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے 98 خواتین نے خلع لے لی۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال کے دوران 7 اور رواں سال کے پہلے 4 ماہ میں 2 خواتین نے اپنے شوہروں کے خلاف ثالثی کونسل میں مقدمات بھی درج کرائے جنہوں نے پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی رچائی، تاہم ان کیسز پر فیصلوں کا ریکارڈ ثالثی کونسل کے پاس نہیں۔

چیئرمین ثالثی کونسل اسلام آباد سید شفاقت حسین نے اس حوالے سے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہوتا نظر آیا ہے اور اس بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ خاندانی نظام کا کمزور ہوتا ہوا ڈھانچہ ہے، دیہات میں اگر میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو خاندان کے بڑے بوڑھے بیٹھ کر ثالثی کروادیتے ہیں تاہم شہری علاقوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے اس لئے چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔

سید شفاقت حسین نے کہا کہ طلاق کی ایک دوسری بڑی وجہ میاں بیوی کا شادی سے پہلے ایک دوسرے پر بڑی بڑی امیدیں لگا لینا ہے ،اکثر جوڑے ایک دوسرے پر امیدیں باندھ لیتے ہیں اور پھر جب عملی زندگی میں یہ امیدیں پوری نہیں ہوپاتیں تو طلاقیں ہوجاتی ہیں،چیئرمین ثالثی کونسل نے بتایا کہ شہری علاقوں میں خواتین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق لینے کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں، کئی خواتین کی شکایت تھی کہ میرا خاوند پارک میں نہیں لے کر جاتا، کسی نے کہا کہ خاوند میری سالگرہ یاد نہیں رکھتے، کسی نے کہا کہ خاوند نے عیدپرشاپنگ نہیں کرائی، بہن کی شادی پر شاپنگ نہیں کرائی، ایسی خواتین دراصل اپنے شوہروں سے بہت زیادہ امیدیں لگا کرشادی کرلیتی ہیں لیکن بعد میں ان کومایوسی ہوتی ہے جس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بناکر طلاقوں تک نوبت آجاتی ہے۔

چیئرمین ثالثی کونسل سید شفاقت حسین نے پریشان کن لہجے میں کہا کہ اس سارے عمل میں جو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق ہے وہ بچے ہیں، ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ جوڑے کے بچے زندگی بھر اس ٹراما سے متاثر رہتے ہیں ،ان کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں، اس لئے جب بھی کوئی جوڑا میرے پاس طلاق کے لئے آتا ہے میں انہیں کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں، ان کے مستقبل کو تباہ نہ کریں، چند جوڑے اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے آپس میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں لیکن اکثر جو یہاں تک پہنچ جاتے ہیں وہ طلاق تک پہنچتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔