پاک افغان سرحد پر باڑلگانا ضروری ہے

ایڈیٹوریل  پير 20 مئ 2019
افغان سرحد پار سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

افغان سرحد پار سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک افغان سرحد پر شمالی وزیرستان کے علاقے داواتوئی جہاں یکم مئی کو دہشت گردوں کے حملے میں 3جوان شہید ہوئے تھے، میں اگلی چوکیوں کے  دورے کے دوران جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، مؤثر بارڈر مینیجمنٹ کے لیے سرحدی باڑ کے ساتھ ایف سی قلعوں کی تعمیر بھی جاری ہے،پاکستان مشرقی سرحد پر بھی مکمل طور پر چوکس ہے اور تیاری جاری رکھے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی کے لیے مثبت کردار جاری رکھے گا اور خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق آرمی چیف اگلے مورچوں پر گئے اور جوانوں کے بلند جذبے کو سراہا۔ اس موقع پر آرمی چیف کو سرحد پر آہنی باڑ لگانے کی پیشرفت، آپریشن، سماجی و معاشی ترقیاتی منصوبوں اور آئی ڈی پیز کی بحالی  پر بریفنگ دی گئی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید  باجوہ نے کہا کہ حتمی کامیابی کے لیے ہمیں صبر، تحمل،عزم اور متحد ہوکے آگے بڑھنا ہوگا، پاکستان کو بدستور چیلنجز درپیش ہیں لیکن ایسے کڑے حالات نہیں ہیں جن سے پاکستان ماضی قریب سے گزرا ہے، کسی بھی ناگہانی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہیں، اس لیے سرحد کو باڑکے ذریعے، نئی چیک پوسٹوں،قلعوں کے قیام سے سرحدی صورتحال کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی گفتگو میں مشرقی سرحد کی حفاظت اور دشمن کی طرف سے کسی بھی ممکنہ کارروائی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ شمال مغرب میں افغانستان کی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات اور افغان مفاہمتی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے پاکستان کے کردار کا ذکر کیا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی اور امن و امان کی دگرگوں صورتحال کے ڈانڈے سرحد پار جا ملتے ہیں جس کے ٹھوس شواہد پاکستان بارہا دنیا کے سامنے لا چکا ہے۔ ایک طرف جہاں پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے تعلق سرحد پار استوار ہیں وہاں افغان سرحد پار سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔

یکم مئی کو بھی شمالی وزیرستان کے علاقے داواتوئی پر سرحد پار سے دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے تین جوان جام شہادت نوش کر گئے تھے‘ یہ صورت حال پاکستان کے لیے پریشان کن ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہ افغان سرحد کے ساتھ ساتھ باڑ لگانے کے علاوہ چوکیوں اور قلعوں کی تعمیر بھی کر رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کی آمدورفت روکی جا سکے۔ افغانستان کی سرحد سے دہشت گردوں کے حملوں پر بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا افغان حکومت اپنی سرحدوں کا موثر دفاع نہیں کر پا رہی اور دہشت گرد گروہ اس قدر طاقتور ہیں کہ جب چاہتے ہیں سرحد پار اپنی مذموم کارروائیاں کر کے بآسانی واپس چلے جاتے ہیں۔ کیا افغان سیکیورٹی ادارے داخلی طور پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں آتی رہی ہیں کہ افغانستان کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر کے اس کے لیے امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

افغانستان ابھی تک ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے‘ وہاں امن و امان کی صورت حال بھی دگرگوں ہے‘ افغانستان میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے طالبان جنگجو گروپوں سے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا گیا لیکن متعدد بار ہونے والے یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے‘ ان مذاکرات کے بارآور نہ ہونے کی وجہ ہر دو فریق کا اپنے موقف پر ڈٹا رہنا اور لچک نہ دکھانا ہے‘ یوں لگتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اقتدار میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مشرقی سرحد پر صورت حال کا تعلق ہے تو بھارت پاکستان کے لیے مسلسل سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر رہا‘ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ معمول بن چکا ہے‘ کچھ عرصہ قبل بھارتی طیاروں کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ ان حالات میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورت حال کو سنبھالا۔ پاکستان کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا تبھی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو جہاں مشرق سے خطرہ موجود وہاں شمال مغرب میں خطرات موجود ہیں۔شمال مغرب سے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے۔ افغان حکومت کی اپنے سرحدی علاقوں پر رٹ موجود نہیں ہے اور ان علاقوں میں دہشت گرد تنظیمیں محفوظ طور پر سرگرم عمل ہیں اور افغان سرزمین سے ہی ان دہشت گرد تنظیموں کے لوگ ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور اس کے بعد دیگر علاقوں تک دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔ اس خطرے کی روک تھام کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا انتہائی ضروری ہے۔ خاصی حد تک اس پر کام ہو چکا ہے لیکن باقی کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ جب تک شمال مغربی سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جاتا ‘پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو نہیں پا سکتا۔ پاک فوج کے سربراہ نے جو باتیں کہی ہیں وہ وقت کی ضرورت ہیں ‘ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے ‘ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی حکومت بھی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کا ساتھ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔