ایران امریکا چپقلش

ایڈیٹوریل  پير 20 مئ 2019
ایران کے خام تیل کی برآمد میں پہلے ہی 50 ہزار بیرل روزانہ کی کمی آ چکی ہے۔ فوٹو: فائل

ایران کے خام تیل کی برآمد میں پہلے ہی 50 ہزار بیرل روزانہ کی کمی آ چکی ہے۔ فوٹو: فائل

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران خطے میں جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ایران کے خلاف مقابلے میں کھڑا ہو سکے مگر دوسری طرف امریکا اس خطے میں جنگ کا ماحول بنانے کے اقدامات کر رہا ہے۔ اس ہفتے کے آغاز میں تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا جس کے بارے میں امریکا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ان ٹینکروں پر ایران نے یمن کے حوثی باغیوں کے ذریعے حملہ کرایا ہے۔ دوسری طرف امریکا اس علاقے میں اپنے جنگی جہاز بھی بھجوا رہا ہے اور ایران کے خلاف اقتصادی  پابندیوں میں مزید سختی کی جا رہی ہے جب کہ تہران امریکا کے ان اقدامات کو نفسیاتی جنگ سے تعبیر کر رہا ہے۔

ایرانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایران سے جنگ نہیں چاہتے مگر امریکا کے عقابی مزاج عناصر امریکی صدر کو جنگ کے لیے مجبور کر رہے ہیں کیونکہ امریکا کی معیشت کا سب سے بڑا ہونے کا بنیادی نکتہ ہی سامان حرب کی زیادہ سے زیادہ فروخت اور ضرورت کے وقت منہ مانگے دام وصول کرنے کا موقع ہے لہٰذا جنگ کی حالت پیدا کرنا امریکا کی اسلحہ لابی کی بنیادی پالیسی کا حصہ ہے۔ ادھر یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ امریکا عراق میں تعینات اپنے فوجی دستے وہاں سے نکال کر ایران کے خلاف جنگ میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ خطے کے ایک اور خلیجی ملک بحرین نے اپنے شہریوں کو عراق یا ایران کے سفر سے منع کر دیا ہے۔ امریکی حکام نے ایران پر خلیج عرب کے علاقے میں جنگی سرگرمیوں میں اضافہ کا الزام لگایا ہے اور خطرہ ظاہر کیا ہے کہ ایران آبنائے ہرمز کی اہم سمندری گزر گاہ کو بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جس سے دنیا کے دیگر ممالک میں پہنچنے والا 40 فیصد تیل بند ہو جائے گا جس سے دنیا بھر میں تیل کا شدید بحران آ جائے گا۔

یہاں واضح رہے کہ ایران کے خام تیل کی برآمد میں پہلے ہی 50 ہزار بیرل روزانہ کی کمی آ چکی ہے جس سے ایرانی معیشت بھی بے حد دبائو میں ہے۔ دوسری طرف امریکی سفارتکاروں نے خلیج فارس یا خلیج عرب کے علاقے پر پرواز کرنے والی غیرملکی فضائی کمپنیوں کو متنبہ کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے تمام کمرشل پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی نئی نہیں ہے بلکہ ایران میں انقلاب آنے کے فوراً بعد ہی دونوں ملکوں میں کشیدگی شروع ہو گئی تھی لیکن صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اب دونوں ملکوں میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ امریکا کی جنگجو لابی مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگی محاذ کھولنا چاہتی ہے۔ یہ انتہائی خطرناک حکمت عملی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں شام‘ عراق اور یمن کا بحران پہلے ہی موجود ہے۔

اب اگر امریکا ایران کے خلاف کوئی مہم جوئی کرتا ہے تو اس کے اثرات مشرق وسطیٰ پر ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور بحرہند کے پورے خطے پر پڑ سکتے ہیں۔ دنیا تیل کے بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس پیچیدہ اور تشویشناک صورت حال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایران کا ہمسایہ ملک ہے ‘ اور پاکستان کے لیے تیل کی ترسیل کا ذریعہ بحیرہ عرب ہے‘ اس علاقے میں کوئی بھی جنگ پاکستان کو براہ راست متاثر کر سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ایسی حکمت عملی تیار رکھے جو کسی بھی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔