بڑی طاقتیں اور امتیازی پالیسی

ظہیر اختر بیدری  پير 20 مئ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

شمالی کوریا کو جھکانے کے لیے امریکا عشروں سے نئی نئی حکمت عملیاں اختیارکر رہا ہے، لیکن شمالی کوریا کی قیادت امریکا کی ہر حکمت عملی کو مسلسل ناکام بنا رہی ہے ۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے ایک نیا تیر چلایا ہے یعنی دنیا کے 70 ممالک کو راضی کر کے ان کے ذریعے شمالی کوریا سے یہ مطالبہ کروایا ہے کہ ’’عالمی امن کو درپیش انتہائی خطرناک صورتحال کے پیش نظر شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار، بیلسٹک میزائل وغیرہ تلف کرے اور ان سے متعلق دیگر پروگرام بند کرے۔‘‘ فرانس کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبے پر امریکا کے علاوہ جنوبی کوریا، ایشیائی اور لاطینی امریکا، افریقہ اور یورپین ممالک نے دستخط کیے ہیں۔

یہ وہ ممالک ہیں جو عموماً امریکا کی خارجہ پالیسی کی براہ راست یا باالواسطہ حمایت کرتے ہیں۔ ان 70 ممالک میں روس اور چین شامل نہیں ، عوامی جمہوریہ چین اور روس نے مذکورہ بالا مطالبے کی حمایت نہیں کی ۔ روس اور چین نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے دنیا کو ممکنہ خطرے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ روس اور چین نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے دنیا کوکوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے دنیا کوکوئی خطرہ کیوں لاحق نہیں ہو سکتا؟

ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان معاہدے کی ناکامی کے بعد شمالی کوریا نے احتجاج کے طور پر ایک ہفتے میں دو بار کم فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے دو تجربات کے بعد 15 ممالک نے ایٹمی پروگرام کے خلاف مسودے پر دستخط کیے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ دستخط کنندگان شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیار اور بیلسٹک میزائل کو خطے اور عالمی امن کے لیے غیر معمولی خطرہ سمجھتے ہیں۔ 15 ممالک نے شمالی کوریا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے امریکا سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے۔ شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ نے حال ہی میں امریکا کو خبردارکیا تھا کہ اگر اس نے شمالی کوریا پر لگائی جانے والی معاشی پابندیاں ختم نہ کیں تو امریکا کو غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان بڑا دلچسپ ہے جس میں صاحب صدر نے فرمایا ہے کہ شمالی کوریا کے حالیہ میزائل تجربات اعتماد شکنی کے زمرے میں نہیں آتے۔ ٹرمپ کے اس بیان سے سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ امریکا ابھی شمالی کوریا کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ٹرمپ شمالی کوریا سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسے مزید وقت دینا چاہتے ہیں۔ ویسے تو دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے تعلقات خراب چلے آ رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تلخیوں میں اور اضافہ ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ٹرمپ اورکم جونگ کے درمیان تعلقات میں اس قدر بہتری آئی تھی کہ اہل سیاست یہ توقع کر رہے تھے کہ شاید اب دونوں ملکوں کے درمیان طویل عرصے سے خراب رہنے والے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ دنیا کے 70 ملکوں سے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات کا اظہار کر کے شمالی کوریا کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو کیا چین اور روس شمالی کوریا کی حمایت جاری رکھ سکیں گے؟

امریکا نے جنوبی کوریا کو جو شمالی کوریا کا سابق حصہ اور پڑوسی ملک ہے، اپنا فوجی اڈہ بنا رکھا ہے اورکہا جاتا ہے کہ اس فوجی اڈے میں امریکا نے ایٹمی ہتھیار بھی بڑی تعداد میں جمع کر رکھے ہیں، اگر یہ بات درست ہے تو پھر شمالی کوریا پر ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کے مطالبے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ امریکی صدر اپنے اثر و رسوخ اپنے وسائل کے حوالے سے 70 ملکوں سے بیان دلوانے میں توکامیاب ہو گئے ہیں لیکن شمالی کوریا کے رہنما بھی ٹرمپ سے کم ضدی نہیں ہیں وہ سر جھکا دیں گے؟

جن تنازعات کا بالواسطہ یا براہ راست تعلق امریکا سے ہوتا ہے انھیں حل کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ سمیت ہر قسم کے حربے امریکا استعمال کرتا ہے اور جن تنازعات کا تعلق امریکا سے بالواسطہ یا بلاواسطہ نہیں ہوتا ان کی طرف وہ دھیان دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔

شمالی کوریا کا مسئلہ خود ٹرمپ کے مطابق اتنا سنگین نہیں کہ امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو لیکن اس تنازع کے حوالے سے ٹرمپ کی بے چینی اور عالمی برادری کا استعمال کیا تعجب خیز اور دو رخی پالیسی کا آئینہ دار نہیں ہے۔ ہندوستان اور پاکستان جب کہ ایران اور اسرائیل کے تنازعات عشروں پر محیط ہیں اور یہ دونوں تنازعات عالمی امن کے لیے حقیقی خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ عشروں سے پینڈنگ میں چلے آ رہے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر پر تو اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کا ذکر تک کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ امریکا کے چونکہ اسرائیل سے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ یہ مسئلہ امریکی انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ملک بار بارکشیدگی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں حتیٰ کہ جنگ کے دہانے پر بھی پہنچ چکے ہیں لیکن امریکا کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔

اسرائیل کی تشفی کے لیے امریکا اور اس کے اتحادی ملک ایران پر مسلسل دباؤ ڈالتے آ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے اس امتیازی سلوک سے کیا دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے؟ امریکا ایک سپر پاور ہے اور سپر پاورکی حیثیت سے اس کی ذمے داری ہے کہ متنازعہ ملکوں میں امتیاز کے بجائے میرٹ کی پالیسی اختیار کی جائے تو امن کی امید کی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔