نئے پاکستان کی کہانی

جمیل مرغز  پير 20 مئ 2019

خیر سے اپنے فواد چوہدری سائنس کے وزیر لگ گئے ہیں‘ان کے تازہ ارشادات کے متعلق سوشل میڈیا پر نرالے اور دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں ‘ لیکن میں ذرا سنجیدہ معاملات کی طرف آتا ہوں۔تبدیلی سرکار کے تقریبا نو ماہ ہوگئے ہیں آج صورت حال کیا ہے؟ گزرے چھ ماہ سرمایہ کاری میں 77 فی صد کمی‘ اسٹاک ایکسچینج سے 42 کروڑ ڈالر کا انخلاء اور کھربوں روپے کا نقصان‘ ایکسپورٹ بڑھی نہ امپورٹ گھٹی‘ مہنگائی بے قابو‘ دوائیوں کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید مہنگی‘ بیروزگاروں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ‘ امیروں سے ٹیکس لینے کی ہمت نہیں اور غریبوں پر پھر سے ٹیکس لگنے والے ہیں۔

کرپشن میں اضافہ اور ریٹ بھی بڑھ گیا‘ بجلی گیس کی چوری پھل پھول رہی‘ انڈسٹری بے یقینی کا شکار‘ کسان تباہ‘ ڈالر 150روپے تک اڑان بھرچکا ہے‘ وزیر اعظم پارلیمنٹ آنے سے خوفزدہ‘ پالیمنٹ میں بے معنی گفتگوکا مقابلہ‘ یہ ہے اس معاشی اور سیاسی ٹیم کی کارکردگی‘ جس نے 22 سال اپوزیشن کاٹی۔22 سال بعد بھی ہوم ورک صفر‘ کنفیوژن الگ‘ اوپر سے ڈائرکشن لیس صورت حال‘پولیس اصلاحات‘ادارہ جاتی اصلاحات کا کچھ پتہ نہیں‘سادگی مہم غائب‘غربت مٹاؤ پلان آنا تھا ‘ 50لاکھ گھر‘ایک کروڑ نوکریاں‘کسی شے کا کوئی اتہ پتہ نہیں‘یہ ایک ایسے صحافی کے الفاظ ہیں جو عمران خان پر دل و جان سے عاشق ہے۔

ادھر وزیر اعظم صاحب صوفی ازم اور روحانیات کی باتیں کررہے ہیں۔ہمارا بھی جواب نہیں دنیاوی مسائل ہم حل نہیں کر سکتے لیکن آسمانی معاملات حل کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں‘معاشرہ پہلے ہی غربت اور پسماندگی میں جھکڑا ہوا ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو لبرل اور سیکولر شعور دیا جائے تاکہ یہ ترقی کی راہ پر چل پڑے‘ایسے ماحول میں وزیر اعظم صاحب کبھی ریاست مدینہ اور کبھی روحانیت کے درس دے رہے ہیں۔

میں آج تک یہ جان نہیں سکا کہ عمران خان نظریاتی طور پر کیا چیز ہیں؟ہر انسان دنیا کے متعلق کچھ نظریہ یا سوچ رکھتا ہے اورترقی پسند‘رجعت پسند ‘مذہبی‘ لبرل‘ سوشلسٹ‘کمیونسٹ ‘سیکولر ‘نیشنلسٹ‘ ڈیموکریٹ‘ کیپٹلسٹ‘ نیو نیشنلسٹ یا نیو لبرل جیسے کسی بھی نظریے کا حامی ہوتا ہے‘ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ عمران خان کا نظریہ کیا ہے؟۔ کرپشن کا خاتمہ تو کوئی نظریہ نہیں ہے‘ کیا تحریک انصاف والوں کو معلوم نہیں کہ پاکستان میں ہر چیز کی کمی ہے سوائے روحانیت کے ‘جتنی روحانی عبادت گاہیں اور  خانقاہیں ہماری سرزمین پر موجود ہیں کسی اور ملک میں نہیں ملیں گی ‘اس لیے ہمیں کسی روحانی تربیت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ وافر مقدار میں میّسر ہیں‘ہمارامسئلہ تو معاشی وسائنسی  ترقی کا ہے‘ افسوس کی بات ہے کہ ہر چیز جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ مغربی ممالک یاپھر جاپان، چین اور جنوبی کوریا کی ایجاد ہوتی ہے ‘ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی وہاں سے ہی ماہرین بطور (consultant) بلانا پڑتا ہیں‘ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ایک جدید فلاحی ریاست بنانے کا ہے‘اگر ہمارے سیاسی ومعاشی خیالات اور نظریات ہی مبہم ہوں گے تو ملک کا تو خدا ہی حافظ۔

کسی سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کرنا مشکل کام ہے‘ جب کہ حکومت کرنا آسان ہے‘ان کی خوش قسمتی ہے کہ ہر مرحلے پر ان کو مقتدرہ قوتوں کی حمایت حاصل رہی‘اپوزیشن اور دھرنوں کا حال سب کو معلوم ہے لیکن جولائی 2018ء کے انتخابات کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے شکوک اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں‘ عمران خان کے لیے حکومت کرنا اس لیے آسان ہے‘ کہ ان کا نظریہ یو ٹرن کا ہے‘ وزیراعظم عمران خان کے لیے حکومت کرنا تو آسان ہے لیکن یہ حکومت عوام پر بہت زیادہ بھاری پڑ رہی ہے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے ملکوں ملکوں سے امداد اکھٹی کی‘ اس کے بعد بھی کام نہیں بنا تو آخر میں ملک کی معاشی پالیسی سامراجی ادارےIMFکے حوالے کر نی پڑی‘اس کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک‘مشیر خزانہ اور FBRکے سربراہ کو بھی باہر سے لانا پڑا‘کبھی معین قریشی کبھی شوکت عزیز ‘یہ انتظام پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘اس میں تبدیلی کی کیا بات ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر ووٹ لیا اور اب پھر وہی رات دن؟۔

گزشتہ سال عام انتخابات سے چند ماہ قبل ایک عجیب عمل شروع ہوا‘ نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا‘ادھر وہ پیشہ ور سیاستدان جن کو الیک ٹیبل کہا جاتا ہے‘دھڑادھڑ تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے‘ان کو ٹکٹ بھی مل گئے۔کسی نے خان صاحب سے پوچھا آپ تو الیک ٹبلز اور پرانے چہروں سے اس قوم کو نجات دلاکر ایک تازہ دم قیادت کی مدد سے نیا پاکستان بنانا چاہ رہے تھے‘یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ خان صاحب نے کہا کہ ’’میں فرشتے کہاں سے لاؤں‘ نئے لوگ کہاں سے لاؤں‘مگر فکر کی بات نہیں‘جب کپتان ٹھیک ہو تو ٹیم کے ممبر خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں‘انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب ملک میں مہنگائی ہوجائے تو سمجھ لو کہ وزیر اعظم کرپٹ اور چور ہے‘پتہ نہیں اب وہ کیا کہتے ہوں گے؟۔

جہاں تک معیشت کا مسئلہ تھا تو اس کے لیے تحریک انصاف کے بقراطوں کے پاس بڑا سادہ اور اچھا فارمولہ تھا‘بس کرپٹ لوگوں کو الٹا کرکے احتساب کی ٹکٹکی پر باندھنا ہوگااور وہ اپنے صندوقوں کی چابیاں دے دیں گے‘نیب ان کے بیڈرومز کی الماریاں کھولے گا اور گدے پھاڑ کر نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہو جائیں گی‘ شاید انھوں نے کوئی ہندوستانی فلم دیکھ لی تھی‘ اس کے بعد تمام پاکستانی کاروباری‘سٹے باز‘سرمایہ کار خود چل کر انکم ٹیکس کے دفتروں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں باندھے نہ صرف ٹیکس ادا کریں گے بلکہ پوچھیں گے کہ جی میرے ذمے کوئی بقایا تو نہیں ہے‘ بیرون ملک ہر پاکستانی ایک ایک ہزار ڈالر چندہ بھیجیں گے‘سوئٹزرلینڈ اور دنیا کے دوسرے ممالک کی آف شور کمپنیاں اور بینک ہماری ٹیموں کو بتائیں گی کہ کس پاکستانی لٹیرے اور چور کا اکاؤنٹ نمبر کیا ہے اور اس میں کتنے پیسے ہیں؟ ۔

مراد سعید کے بقول دوسرے دن  دو سو ارب ڈالر تو فورا پاکستان آجائے گا‘جس کو قرضداروں کے منہ پر ماریں گے‘کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ملک ترقی کی راہ پر دوڑنے لگے گا‘جب پانچ سال پورے ہوں گے تو پاکستانیوں کے ساتھ غیر ملکی باشندے بھی پاکستان میں ملازمتیں لینے کے لیے دوڑے ہوئے آئیں گے۔ان سارے کاموں کے لیے پہلے سے ٹیم بھی موجود ہے اور ان کی تیاری بھی کافی ہے‘پنجاب کے لیے علیم خان‘خزانے کو بھرنے کے لیے ماہر معاشیات اسد عمر‘خارجہ پالیسی کے لیے شاہ محمود‘ان دعوؤں سے عوام اور خواص بھی دھوکہ کھاگئے اور زور شور سے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے کام پر لگ گئی‘اب جب آنکھ کھل گئی تو سب ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔