مہنگائی کے باعث گھروں سے باہرسحری کا رجحان کم ہوگیا

عامر خان / اسٹاف رپورٹر  پير 20 مئ 2019
متوسط طبقہ محدود وسائل کے باعث گھروں پر ہی سحری کرتا ہے، اشرافیہ بڑے ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈ سینٹرز پر سحری کرتے ہیں
۔ فوٹو: ایکسپریس

متوسط طبقہ محدود وسائل کے باعث گھروں پر ہی سحری کرتا ہے، اشرافیہ بڑے ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈ سینٹرز پر سحری کرتے ہیں ۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: امسال رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید کم ہوگئی ہے جس کے سبب گھروں سے باہرسحری کرنے کے رجحان میں بتدریج کمی آرہی ہے، متوسط اورغریب طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محدود وسائل کے مطابق گھروں میں سحری کا اہتمام کریں۔

ایکسپریس نے شہرمیں رمضان المبارک میں سحری گھروں سے باہرکرنے والے شہریوں سے متعلق سروے کیا اسی دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ ہر علاقے میں سحری کرنے کا اپنا ایک مزاج ہے، شہر کراچی میں تین انداز میں سحری کی جاتی ہے، سحری کا پہلا انداز طبقہ اشرافیہ کا ہے، جو بڑے ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈز پر سحری کرتے ہیں جبکہ دوسرا انداز متوسط طبقے کا ہے، جو اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے ہوٹلوں اور مختلف کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں پر سحری کرتے ہیں جبکہ تیسرا انداز غریب اور مزدور طبقے کا ہے، یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جو مزدوری کمانے اپنے اپنے علاقوں سے کراچی آئے ہوتے ہیں، وہ چائے کے ہوٹلوں یا چھپڑا ہوٹل پر سستی سحری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، سحری کے موقع پر متوسط طبقے کے علاقوں لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، کیماڑی، گلبرگ، پی آئی بی کالونی، رنچھورلائن، نیو کراچی، لائنز ایریا، کالا پل اور دیگر میں دن کی نسبت رات کو بھی رونق ہوتی ہے اور ان علاقوں میں پراٹھا، انڈا آملیٹ، چنے کی دال فرائی، قیمہ فرائی، چھولے اور چائے سے سحری کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ سالن، روٹی اور چائے کے ساتھ سحری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، سحری کا مخصوص انداز کھارادر باکڑا ہوٹل والی گلی، کھڈہ مارکیٹ لیاری، صدر حسین آباد، برنس روڈ اور دیگر علاقوں میں الگ ہی نظر آتا ہے۔

ان علاقوں میں شہریوں کی بڑی تعداد چٹ پٹ کھانوں سے سحری کرتے ہیں۔ ان کھانوں میں بکرے کی چانپ، بریانی، حلی، چکن اور مٹن کڑاہی، نہاری، مختلف اقسام کے کباب، بوٹی فرائی، چنے اور مونگ کی دال فرائی اور دیگر کھانے شامل ہیں، رنچھوڑلائن میں عوام کی بڑی تعداد حلوہ پوری، کاٹھیا واڑی چھولے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا سحری میں کھاتے ہیں۔ پوش علاقوں میں فوڈ سینٹرز پر چکن تکہ، بروسٹ، بہاری بوٹی، ملائی بوٹی، بہاری کباب، گولہ کباب اور مختلف اقسام کی کڑاہی کھاتی ہے جبکہ پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے اور نوجوان نسل سحری کے اوقات میں مختلف اقسام کے برگر اور سینڈوچ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، سروے کے دوران الکرم اسکوائر کے ریسٹورینٹ کے مالک زاہد احمد نے بتایا کہ مہنگائی کے سبب امسال ریسٹورینٹس پر سحری کرنے کے رحجان میں کمی آئی ہے اور 70فیصد سے زائد افراد گھروں میں سحری کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

رمضان میں سحری کا زیادہ اہتمام میمن برادری کرتی ہے

رمضان المبارک میں سحری کے موقع پر سب سے زیادہ اہتمام میمن برادری کرتی ہے اور میمن برادری کی بڑی تعداد سحری کے موقع پر گھروں کے بجائے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈز پر سحری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اسی لیے میمن برادری سے تعلق رکھنے والے علاقوں کھارادر ، کھڈامارکیٹ لیاری ، دھورا جی ، برنس روڈ ، حسین آباد اور رہائشی علاقوں میں رش دیکھنے میں آتا ہے۔ برنس روڈ پر شہری کی بڑی تعداد سحری کے اوقات میں سجی ، مٹن کڑھائی اور بریانی کھانا پسند کرتی ہے جبکہ حسین آباد پر پلائو ، تلی ہوئی مچھلی ، چائنیز رائس ، دال چاول اور دیگر کھانے پینے کی اشیا سحری میں فروخت ہوتی ہے، میمن برادری کی بڑی تعداد خصوصاً نوجوان نسل سحری گھروں سے باہر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کے دنوں میں ان علاقوں میں رش دیکھنے میں آتا ہے۔

شہری سحری میں دودھ کی ٹھنڈی بوتل اور لسی پینا پسند کرتے ہیں
رواں سال رمضان المبارک میں موسم بہتر ہونے کے باوجود سحری کے اوقات میں دودھ کی دکانوں پر رش دیکھنے میں آرہا ہے، شہریوں کی بڑی تعداد ان دکانوں پر سحری کے وقت میں دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں اور لسی پینا پسند کرتے ہیں جبکہ گرمی سے بچنے کے لیے سادہ ٹھنڈی دہی بھی کھائی جاتی ہے اس کے علاوہ سحری کے اوقات میں کئی علاقوں میں ٹھنڈے مشروبات اور گولے گنڈے کھانے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔

سحری کے وقت بس اڈوں، ٹیکسی اور رکشا اسٹینڈزپررش ہوجاتاہے
رمضان المبارک میں سحری کے اوقات میں سب سے زیادہ رش بس اڈوں اور رکشہ اسٹینڈوں سے منسلک چائے خانوں اور ریسٹورنٹس پر ہوتا ہے ان ریسٹورنٹس پر ڈرائیوروں ، کنڈیکٹروں ، مسافروں کے علاوہ عام شہری بھی سحری کے موقع پر مختلف اقسام کی کھانے پینے کی اشیا سے سحری کرتے ہیں کینٹ اسٹیشن سے ملحق ریسٹورنٹس پر بھی رش دیکھنے میں آتا ہے سہراب گوٹھ پر ریسٹورینٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ کراچی میں روزانہ 500 انٹر سٹی بسیں آتی اور جاتی ہیں جس کی وجہ سے کیماڑی ، اورنگی ٹائون، لی مارکیٹ ، قائد آباد ، سہراب گوٹھ ، ملیر ، صدر ، بنارس چوک ، الکرم اسکوائر اور انٹر سٹی بس اڈوں کے علاوہ سپرہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر مختلف ریسٹورینٹس پر عام دنوں کے علاوہ رمضان میں رش بڑھ جاتا ہے اور سحری کے وقت مسافر بس ڈرائیور اور کلینرز زیادہ تر فرائی گوشت پراٹھے ،چائے اور دیگر کھانوں کے ساتھ سحری کرنا پسند کرتے ہیں۔

شہریوں کی بڑی تعدادہفتہ وار تعطیل پر باہر سحری کرتی ہے
شہریوں کی بڑی تعداد ہفتہ وار تعطیل کے موقع گھروں سے باہر سحری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، مقامی ریسٹورنٹ کے مالک آصف کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں 30 فیصد، دوسرے عشرے میں 40 فیصد اور تیسرے اور آخری عشرے میں 50 فیصد شہری گھروں سے باہر سحری کرتے ہیں لیکن امسال ان افراد کی تعداد میں کمی آنے کا امکان ہے انھوں نے بتایا کہ شہریوں کی بڑی تعداد ہفتے،جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سحری گھروں سے باہر کرتے ہیں، شہریوں کی بڑی تعداد ہفتہ وار تعطیل کے ایام میں کراچی کے ساحلی مقامات پر بھی چلی جاتی ہے۔

جہاں ایک جانب پکنک منائی جاتی ہے، وہیں سحری کے اوقات میں مختلف اقسام کے کھانے تیار کرکے کھاتے ہیں اور پھر روزہ رکھا جاتا ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے اسی لیے رات کے وقت شہری بلا خوف و خطر ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کا رخ کرکے سحری کرتے ہیں ساحلی علاقوں بابا بھٹ، منوڑہ شمس پیر، ماڑی پور، ابراہیم حیدری اور کیماڑی میں شہریوں کی بڑی تعداد گھروں کے علاوہ مختلف ہوٹلوں پر مچھلی چاول، جھینگا سالن اور دیگر سی فوڈ سے سحری کرتے ہیں، الآصف، منگھوپیر اور افغان خیمہ بستی میں سحری کے اوقات میں کابلی پلاؤ، دودھ روٹی اور فرائی گوشت کھاتے ہیں۔

رمضان میں کھانے پینے کی اشیاکی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا
رمضان المبارک میں مہنگائی کے باعث رواں مختلف اقسام کی کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں منافع خوروں نے مصنوعی اضافہ کر دیا ہے۔ خصوصاً بکرے کا گوشت کی قیمت 1000 روپے تک پہنچ جانے کے باعث مٹن کڑاہی 1400 سے 1600 روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے دیگر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بھی 10 روپے سے 100 روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سادہ چائے کا بڑا کپ 20 روپے ، دودھ پتی 30 ، سادہ پراٹھہ 15 سے 20 ، آلو پراٹھہ 30 سے 40 ، قیمہ پراٹھہ 50 سے 60 ، حلیم 100 فی پلیٹ ، حلوہ پوری 15 سے 20 ، سادہ بریانی 70 سے 80 ، چکن بریانی 120 سے 150 ، بیف بریانی 150 سے 200 ، کباب اور بوٹی کی پلیٹ 200 روپے ، سادی دال 60 ، فرائی دال 100 ،قیمہ پلیٹ 70 سے 100 روپے ، مختلف اقسام کے برگر 100 سے 250 جبکہ بروسٹ 200 سے 250، چکن اور مٹن کڑھائی میں بھی 100 سے 200 روپے اضافہ ہو گیا ہے۔

افطاری اورتراویح کے بعد چائے خانوں کی رونق بڑھ جاتی ہے
رمضان المبارک میں افطاری اور تراویح کے بعد چھوٹے ریسٹورنٹس اور چائے خانوں کی رونقوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، الکرم اسکوائر لیاقت آباد، حسین آباد، صدر ، رنچھورلائن ، گارڈن ، لسبیلہ ، کورنگی ، لانڈھی ، ملیر ، لائنز ایریا اور دیگر علاقوں کے ریسٹورنٹس پر افطار اور تراویح کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے شہری ان ریسٹورنٹس پر بیٹھ کر چائے پیتے ہیں نوجوان طبقہ روز مرہ کے معمولات پر گفتگو ہوتی ہے جبکہ بزرگ افراد سیاست اور ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہیں، سحری کے وقت مضافاتی علاقوں کے ریسٹورینٹس اور چائے خانوں پر زیادہ تر مزدور طبقہ رکشہ ، ٹیکسی چلانے والے افراد اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سحری کرتے ہیں۔ مزدور طبقہ پراٹھہ ، دال یا گوشت کے سالن یا قیمہ پراٹھے سے سحری کرتا ہے جبکہ نوجوان طبقہ فرائی قیمہ ، حلیم یا مختلف اقسام کے پراٹھوں یا چائے سے سحری کرتا ہے، شہری افطاری سے سحری تک کئی بار چائے پیتے ہیں، شہریوں کی بڑی تعداد کوئٹہ وال چائے خانوں پر کڑک چائے پینے کو ترجیح دیتی ہے۔

رمضان میں 50 فیصد ریسٹورنٹسایک ماہ کیلیے بند کر دیے جاتے ہیں
رمضان المبارک میں احترام رمضان کے باعث شہر کے 50 فیصد سے زائد ریسٹورنٹس ایک ماہ کے لیے مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں اور جو ریسٹورنٹس کھلے ہوتے ہیں وہاں صرف ایک شفٹ میں کام ہوتا ہے سحری کے موقع پر متوسط اور غریب طبقے کے علاقوں میں چائے خانوں پر زیادہ رش دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ ان چائے خانوں پر سحری کے اوقات میں پراٹھے، قیمہ فرائی، دال چنا فرائی، ملائی اور چائے کے ساتھ شہری بڑی تعداد میں سحری کرتے ہیں ریسٹورینٹ مالکان کا کہنا ہے کہ سحری میں زیادہ تر پراٹھے اور چائے فروخت ہوتے ہے اور عام دنوں میں کھانے پینے کی اشیا دن کے اوقات میں جن ہوٹلوں پر فروخت ہوتی ہے وہ رمضان کے احترام کے باعث بند کردیے جاتے ہیں۔

بڑے ریسٹورنٹس بند ہونے سے ماہر کاریگر کم ہوگئے
 رمضان میں بیشتر ریسٹورنٹس بند ہونے کی وجہ سے 80 فیصد کاریگر 45 دنوں کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے کھانا اور چائے پکانے کے ماہر کاری گروں کی قلت ہو جاتی ہے ، جو کاریگر دستیاب ہوتے ہیں ، ان کو ڈبل اجرت دی جاتی ہے، مقامی ہوٹل کے مالک کے مطابق 10 رمضان کے بولٹن مارکیٹ ، جامع کلاتھ ، کلفٹن، طارق روڈ ، لیاقت آباد ، حیدری ، صدر اور دیگر علاقوں میں واقع شاپنگ سینٹرز اور بازاروں میں عید کی خریداری کے حوالے سے رش بڑھ جائے گا جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد ریسٹورنٹس اور باربی کیوز کا رخ کرے گی رمضان کے آخری ایام میں شہریوں کی ترجیح ہو گی کہ وہ رات کو شاپنگ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔