اپوزیشن جماعتوں کا اے پی سی کا اعلان

ایڈیٹوریل  منگل 21 مئ 2019
آج پھر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اکٹھی ہو رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

آج پھر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اکٹھی ہو رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر اور مشاورتی اجلاس میں شریک اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج اور حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عید الفطر کے بعد مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں آل پارٹیز کانفرنس ہو گی جس میں حکومت کے خلاف مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دی جائے گی۔ افطار پارٹی میں ملک کے موجودہ سیاسی‘ اقتصادی اور دیگر مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی افطار پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جمہوریت بچانے کے نام پر اکٹھے ہونے والے لوگوں نے ملک آگے نہیں بڑھنے دیا‘ عوام اپوزیشن کی ابو بچاؤ افطاری بیٹھک کو مسترد کر دے گی۔

پاکستان میں حکومت مخالف سیاسی اتحاد کوئی نئی بات نہیں‘ ماضی کے اوراق ایسے سیاسی اتحادوں کی داستانیں جا بجا سناتے نظر آتے ہیں‘ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پرویز مشرف حکومت کے خلاف جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے نام پر سیاسی اتحاد وجود میں آیا تھا‘ یہ الگ بات ہے کہ اس اتحاد میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کا کتنا ساتھ دیا اور کہاں ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

اقتدار میں آنے والی ہر پارٹی ماضی میں تشکیل دیے گئے سیاسی اتحاد اور میثاق کے نکات کو بھولنے کی کوشش کرتی رہی اور اپنی حکومت کو استحکام دینے اور ماضی کی اتحادی اپوزیشن کو رگیدنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتی رہی۔ تجزیہ نگار بلاول بھٹو کی بلائی گئی افطار پارٹی کو حکومت کو دباؤ میں لانے اور اس کے خلاف تحریک چلانے کی ابتدائی اسٹیج قرار دے رہے ہیں۔

اس سیاسی افطاری  کے بعد یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی اتحاد کامیابی سے آگے بڑھ پائے گا‘ حکومت مخالف تحریک چلانے کے ایجنڈے پر وہ ایک دوسرے کا کس سطح تک ساتھ دیں گے۔ ابھی دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حکومت مخالف تحریک کے لیے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں، فی الحال اس سیاسی افطاری میں حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے مہنگائی اور عوام کے مسائل کے حل کو سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں‘ ہماری معیشت ایسے چلتی رہی تو ملک کو نقصان ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک چلانے میں ناکام ہو گئی ہے‘ احتساب کے نام پر انتقام کی جو کوشش کی جا رہی ہے یہ آمریت کا حصہ ہوتی تھی مگر آج یہ جمہوریت کا حصہ بن گئی ہے۔ اے این پی کے افتخار حسین نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک گروی رکھ دیا گیا ہے‘ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔

اس سیاسی افطار پارٹی میں اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی بوجوہ شریک نہیں ہو سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر تحریک چلانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا یہ اتحاد کسی بھی سیاسی اختلاف کا شکار ہو جاتا ہے۔ حکومت کے خلاف ماضی میں جو تحریکیں چلائی گئیں‘ ان میں جلاؤ گھیراؤ‘ ہنگاموں‘ توڑ پھوڑ اور ہڑتالوں سے ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان پہنچا‘ اگرچہ بعض تحریکیں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئیں لیکن اقتدار سے محروم ہونے والی جماعت نے اپوزیشن کی حیثیت میں آنے کے بعد حکومت کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا۔ ان تحریکوں سے ملک کو معاشی طور پر جو بھاری نقصان پہنچا اس کا خمیازہ پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

آج پھر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اکٹھی ہو رہی ہیں‘ حکومت کے خلاف تحریک چلانا اپوزیشن کا آئینی حق ہے لیکن انھیں ماضی کے تناظر میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے ملک میں جلاؤ گھیراؤ اور ہنگاموں کی کیفیت پیدا اور امن و امان کی صورت حال خراب ہو۔ آج ملک معاشی طور پر جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے وہ قطعی طور پر کسی ہنگامہ خیز صورت حال یا افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکمران طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس وقت جو معاشی بحران ہے وہ ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور وہ اپنی کرپشن چھپانے کے لیے سیاسی اتحاد کا سہارا لے رہے ہیں۔

الزامات در الزامات سیاسی کھیل کا حصہ ہیں لیکن اس کھیل میں کسی ایسے انتہائی اقدام سے گریز کیا جانا چاہیے جس سے ملک کو معاشی‘ سیاسی یا کسی بھی پہلو سے گزند پہنچے بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی گورننس کو درست کرے اور ڈلیور کرے، اس طریقے سے ہی اپوزیشن کی تنقید سے بچا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔