ایک بنگلہ ہے نیارا

سعد اللہ جان برق  منگل 21 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کبھی کبھی ہم خود بھی حیران اور پریشان ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ بعض باتیں، لطیفے یا کہانیاں ہمیں اچانک اور بلاوجہ یاد کیوں آجاتی ہیں۔اس وقت بھی جو بے تکی کہانی ہمیں دمُ ہلا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کررہی ہے، وہ ایسی ہی ہے۔ نہ صورت نہ شکل نہ مطلب نہ مقصد، بس ایویں۔ اور لگتاہے کسی اچھے مصنف کی بنائی ہوئی بھی نہیں ہے۔ نہ ہی’’فٹ‘‘کہی جاسکتی ہے۔

چلیے آپ کو سنائے دیتے ہیں، شاید آپ کی قابل رشک اور عالم میں انتخاب سمجھ دانی کام کرجائے کیونکہ آپ کی سمجھ دانی کے بارے میں ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جوبات سمجھنے کی نہیں ہوتی وہ بھی اس میں آجاتی ہے البتہ جوبات سمجھنے کی ہوتی ہے وہ دروازے کے باہر کھڑی ہی رہ جاتی ہے۔کہانی یہ ہے کہ ’’چور‘‘تھا۔ جی ہاں، ایک ہی چور تھا جو ساری چوریاں کرتاتھا اور چوری کے سوا کچھ نہیں کرتا تھا۔

وہ چور چونکہ پاکستان میں بھی نہیں تھا اور زمانہ بھی اس کا الگ تھا ورنہ’’چور‘‘اور غریب؟لیکن وہ سخت غریب تھا کیونکہ اس زمانے میں احتساب اور یہ دوسرے ’’کوآپریٹیو‘‘ادارے بھی نہیں ہوتے تھے۔ بچارا اکیلے ہی دھندہ کرتا تھا۔ ایک دن اس نے چوری کا ایک بڑا منصوبہ بنایا اور بیوی سے کہا کہ اب ہمارے سارے دلدر دور ہوجائیں گے، ہر روز گوشت پکے گا، ہرشام پلاؤکھائیں گے اور ہر رات ’’حلوہ‘‘ٹھونس کرسوئیں گے۔ بیوی نے کہا، گوشت کو گولی مار، پلاؤ زردے پر لعنت بھیج اور حلوے پر تھوک، پہلے اس جھونپڑی کا کچھ کر، جسے ہم’’گھر‘‘کہتے ہیں اور ہروقت شرماتے رہتے ہیں۔ چور نے کہا ، ٹھیک ہے پہلے نیاگھر بلکہ دکان بلکہ بنگلہ بنائیں گے۔

ایک بنگلہ ہے نیارا

میں مہم پرجارہاہوں، تم دیکھتی رہنا، اگر صبح میں آتے ہوئے ہنستاہوا نظرآؤں تو ترنت اس منخوس پرانے گھر کو آگ لگادینا تاکہ نیاگھر یا بنگلہ بنانے میں دیر بالکل نہ ہو۔لیکن وہاں معاملہ الٹ پلٹ ہوگیا، جس گھر کو اس نے تاک رکھا تھا، وہ بے وقت جاگ گئے اور اسے پکڑلیا۔کچھ نے جکڑلیااور ایک ظالم نے اس کا اوپری ہونٹ مونچھوں سمیت کاٹ ڈالا ۔ نہ جانے اس کم بخت کو مونچھوں سے اتنا بیر کیوں تھا، شاید اس لیے کہ اس کی مونچھیں بہت بڑی بڑی لمبی لمبی اور پھیلی ہوئی تھیں۔ اوپری ہونٹ مونچھوں سمیت ہارکر وہ جب گھر کو چلا تو نہایت بے مزہ ہورہاتھا لیکن بیوی نے تو اسے دانت نکال کرہنستے ہوئے دیکھ لیاتھا۔آگے کیاہوا؟کیانہیں ہوا یاکیاکیا ہوا ، اس سے کوئی مطلب نہیں کیونکہ یہ دنیا ہے، ایسی اوٹ پٹانگ جس میں صرف اوٹ پٹانگ کام ہی ہوتے ہیں اور جب اس کی خود کوئی’’کل‘‘سیدھی نہیں تو سیدھی کروٹ کیوں؟

یہاں ہوتاہے بھائی ساراکاروبار الٹا

ہم الٹے بات الٹی یار الٹا

آپ کہہ سکتے ہیں اور کہنے کے علاوہ آپ اور کربھی کیاسکتے ہیں کہ وہ’’چور‘‘اتنا بے وقوف کیوں تھا اور جواب میں ہم کہیں گے کہ وہ چور ہی کیوں تھا؟لیکن یہ ہوجاتاہے، کوئی کچھ بھی بن جاتاہے اور پھر لوگ بھی ایسے بناتے رہتے ہیں، دوسرا سوال آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اس کی بیوی اس سے بھی زیادہ الُو کیوں تھی۔ ذرا سوچ لیاہوتا ہے کہ شوہرواقعی ہنس کرچلاآرہاہے یا صرف دانت لیے ’’چلا‘‘ آرہاہے اور یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ ’’بیوی‘‘نہیں ہیں ورنہ پتہ ہوتا کہ بیویاں شوہروں کی صرف جیبدیکھتی ہیں اور کچھ نہیں دیکھتیں بلکہ صحیح بیویاں تو ’’شوہر‘‘تک کو نہیں دیکھتیں ، اس کے آس پاس کے بنگلے دیکھتی ہیں۔ شوہروں کا کیاہے، اس بیچارے نے کہاں جانا ہے۔

بہرحال ہم نے تو کہانی سناناتھی ، وہ سنا دی ۔آپ اس میں سے کیاکیانکالتے ہیں اور کیاکیا اس میں ڈالتے ہیں، آپ جانیں اور ’’وہ‘‘۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ’’وہ‘‘کون  تو ہم بتائیں گے کہ ’’وہ وہ‘‘ہوتاہے بلکہ ہرکوئی کسی نہ کسی کا’’وہ‘‘ہوتاہے۔ گویا اس دنیا میں سب ہی ’’وہ وہ‘‘ ہیں اور جب ’’وہ وہ‘‘ ہوئے تو ’’وہ وہ‘‘کریں گے بھی۔اس لیے ہم تو کیا کوئی بڑے بڑے فلاسوف، دانا دانشور اور افلاطون وارسطو  تک یہ نہیں بتاسکتاہے کہ کون سا’’وہ‘‘کون سا وہ ہے۔ یعنی ’’ ہوازہو‘‘ وہ ازوہ اور وہاٹ ازوہاٹ، اس لیے آپ اپنا مطلوبہ’’وہ‘‘خود ہی تلاش کریں، پھر اس’’چور‘‘ کے کٹے ہونٹ کاراز بھی جان لیں گے اور اس بیوی کا  بھی۔جس نے نیاگھر بلکہ نیابنگلہ بنانے کے شوق میں پرانی جھونپڑی پھونک ڈالی۔ہم نے پہلے بھی بتایاہے کہ کہانیاں صرف کہانیاں ہوتی ہیں اور ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ صرف’’تاثر‘‘ہوتاہے لیکن’’تاثر‘‘کا بھی الگ الگ پیمانہ ہوتاہے۔

ایک ہی گلاس آدھا ’’بھرا‘‘ بھی ہوتاہے اور آدھا خالی بھی۔اور اگر آپ کسی کو کھڑا کرکے ایک پیر آگ میں رکھیں اور دوسرا برف میں۔تو کل ملاکر اس کا’’ٹمپریچر‘‘ ’’اوسط‘‘ہی ہوگا۔وہ کتنا بھی روئے چیخے چلائے، ہائے جلا ہائے مرا کہے، بالکل بھی دھیان مت دیجیے، اپنا سارا دھیان صرف ’’تھرمامیٹر‘‘پر رکھیے کیوں کہ صرف تھرمامیٹر ہی سچاہوتاہے، باقی سب ’’جھوٹ‘‘۔ اب تھرمامیٹر کو آپ میٖڈیا سمجھیں، بیانات سمجھیں اور خاص طور پر وہ بیانات جن میں باراتیں ہی باراتیںس ہوتی ہیں جو کچھ چڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور کچھ بہت جلد چڑھنے والی ہوتی ہیں اور ان میں ایک دولہاگھوڑی پرسوار ہوتاہے، دولہا بدلنے کا کسی کو پتہ نہ چلے ، اس لیے ہر دولہے کا چہرہ اندر سہرارکھاجاتاہے۔

خیراماما رات میں نکلا

تاروں کی بارات میں نکلا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔