ایک سچے آرٹسٹ میں بناوٹ نہیں ہوتی، کنول نصیر

حسان خالد  منگل 21 مئ 2019
ریڈیو سے تہذیب سیکھی، ممتاز براڈکاسٹر کنول نصیر سے مکالمہ ۔  ظفر اسلم راجہ

ریڈیو سے تہذیب سیکھی، ممتاز براڈکاسٹر کنول نصیر سے مکالمہ ۔ ظفر اسلم راجہ

برصغیر کی مقبول براڈکاسٹر موہنی حمید، جنہیں ایشیاء کی ’گولڈن وائس‘ قرار دیا گیا، کی بیٹی کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا: خوش آواز، خوش گفتار اور خوش اخلاق۔ اپنی نامور والدہ کی طرح کنول نصیر نے بھی براڈکاسٹنگ کی دنیامیں منفرد مقام بنایا۔

50 سال سے زیادہ کے فنی سفر کی ابتدا ریڈیو سے ہوئی، لیکن قومی سطح پر پہچان پاکستان ٹیلی ویژن سے ملی۔ انہیں پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناؤنسر اور اداکارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے تحت ہونے والے آرٹ، ثقافت اور موسیقی کے ان گنت پروگراموں میں بطور میزبان فرائض انجام دیئے۔

لاہور میں آنکھ کھولنے والی کنول نصیر کو بچپن میں ہی ادب و فن کی بڑی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ والدہ لاہور سنٹر میں سٹاف آرٹسٹ تھیں، اس لیے ریڈیو ان کے لیے گھر کی طرح تھا، جہاں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، امتیاز علی تاج، رفیع پیر، مصطفیٰ ہمدانی اور سلطان کھوسٹ جیسے لوگ آتے جاتے تھے۔ وہ ان سب کو ماموں یا چچا کہہ کر مخاطب کرتیں۔ جیسے جیسے شعور آتا گیا، ان کے دل میں ان شخصیات کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا گیا۔وہ بتاتی ہیں، ’’اس دور میں یہ سوچ نہیں آئی تھی کہ کس کے پاس کون سے ماڈل کی کار ہے۔ سادہ لوگ تھے، اکثر اپنی سائیکل پر آتے۔ اقدار کو اہمیت دی جاتی۔ میں نے ان لوگوں اور ریڈیو پاکستان سے تہذیب سیکھی ہے۔ تو ہمارا ملنا جلنا ایسے لوگوں سے تھا، ہم لوگ ایک خاندان کی طرح تھے اور ہماری یہ دوستیاں اگلی نسلوں تک چلیں۔‘‘

انہوں نے سات سال کی عمر میں بچوں کے ایک ڈرامے میں پہلا کردار ادا کیا اور یہ کردار ایک لڑکے کا تھا۔ کسی وجہ سے وہ لڑکا نہ آسکا، ان کی آواز بھاری تھی، چنانچہ انہیں ہنگامی طور پر اسکرپٹ یاد کرایا گیا، جسے انہوں نے پڑھ دیا۔ والدہ سکھانے کے معاملے میں سخت تھیں۔ انہیں گھر میں اونچی آواز میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ کوئی جملہ یا لفظ غلط بولتیں تو فوراً تصحیح کر دیتیں۔ یہ ٹریننگ آگے چل کر ان کے بہت کام آئی۔ جب ریڈیو کے لیے باقاعدہ کام کرنا شروع کیا تو والدہ اسکرپٹ اچھی طرح سے یاد کرنے اور ریہرسل کرنے پر زور دیتیں۔ بتاتی ہیں، ’’امی کے ساتھ بھی کام کیا، جس میں وہ چھوٹی بہن کا کردار ادا کرتیں اور میں بڑی بہن کا، کیونکہ امی کی آواز بڑی منفرد اور کھنکتی ہوئی تھی۔ امی کہتیں کہ بات چاہے سنجیدہ ہو، لیکن آواز میں ایک مسکراہٹ ہمیشہ ہونی چاہیے۔‘‘

26 نومبر 1964ء کو لاہور سنٹر سے پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا۔ اس دن پہلی اناؤنسمنٹ کے لیے ایک دوسری خاتون کا انتخاب کیا گیا تھا، لیکن غلط تلفظ کی وجہ سے ان کو اجازت نہ مل سکی۔ چنانچہ پروڈیوسر فضل کمال، جنہیں وہ ماموں کہتی تھیں، کے کہنے پر انہیں خصوصی طور پر ریڈیوسے بلایا گیا۔ پہلے دن وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھیں، جہاں صدر ایوب، گورنر امیر محمد خان اور دوسری اعلیٰ حکومتی شخصیات آئی ہوئی تھیں۔ بعد میں انہیں صدر مملکت سے شاباش بھی ملی۔ ٹی وی پر کام کے لیے اسلم اظہر نے ان کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ بتاتی ہیں، ’’میں سولہ سترہ سال کی لڑکی تھی اور فرسٹ ایئر میں پڑھتی تھی۔ میرے لیے کیمرے کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے بہت محبت سے ہمیں گروم کیا اور حوصلہ دیا۔ اسلم صاحب کی اہلیہ نسرین بھی وہاں ساتھ آتی تھیں، وہ ہمارے لیے ماں جیسی شفیق ہستی تھیں، ان کا بھی اس میں بڑا کردار ہے کہ ہم سب لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔‘‘ کنول نصیر نے پی ٹی وی کے پہلے ڈرامے میں ہیروئین کا کردار ادا کیا، قوی خاں ہیرو تھے۔ بعد ازاں کچھ ڈراموں میں کام کیا، لیکن وہ اپنے آپ کو اچھی اداکار نہیں سمجھتیں۔ کہتی ہیں،’’مجھ سے اداکاری نہیں ہوتی اور نہ ہی اسکرپٹ یاد ہوتا ہے۔ پہلے مجبوری تھی کہ کوئی اور تھا ہی نہیں، جب ٹی وی میں دوسری ٹیلنٹڈ لڑکیاں آئیں تو میں نے اداکاری چھوڑ دی۔‘‘

یکم ستمبر 1965ء کو ان کا نکاح وقار نصیر سے ہوا، جو آرمی میں آفیسر تھے۔ ایک سال بعد رخصتی ہوئی، جس کے بعد وہ شوہر کے ہمراہ کنٹونمٹس میں چلی گئیں۔ جب شوہر کا تبادلہ راولپنڈی ہوا تو پھر پی ٹی وی سے دوبارہ تعلق استوار ہو گیا۔ انہوں نے پی ٹی وی کے مختلف شہروں میں نئے بننے والے سنٹرز کے لیے بھی اناؤنسمنٹس کیں۔ ٹی وی اور ریڈیو سے انہوں نے زیادہ تر موسیقی کے پروگرام کیے۔ نو سال مسلسل ریڈیو کے لیے پروگرام کیا، جسے وہ لکھتی بھی خود تھیں۔

پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے علاوہ وہ گھریلو ذمہ داریوں سے بھی غافل نہیں رہیں۔ اپنے آپ کو گھریلو خاتون کہنے والی کنول نصیر کھانا خود بناتی ہیں، اور روایتی کھانے، اچار ، مربے بھی خود تیار کر لیتی ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر اور بچوں کے لیے سویٹر بھی بُنے۔ اپنے شوہر سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا جو کتابیں پڑھنے کے شیدائی تھے۔ یہ شوق ان میں بھی ہے اور بچوں میں بھی منتقل ہوا۔ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی والدہ ہیں۔ انہیں احمد فراز کی شاعری پسند ہے۔ کہتی ہیں: زندگی میں جو بھی ملا ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، ہم نے محنت ضرور کی ہے، لیکن کبھی کسی دوسرے کی چیز لینے کو دل نہیں کیا۔ جو دوسروں کا حق ہے وہ انہیں ملنا چاہیے۔‘‘ انہیں پرائڈ آف پرفارمنس، تین نگار ایوارڈز، بولان ایوارڈ ، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور کئی دوسرے اعزازات ملے۔

اپنے کلچر کو فراموش مت کریں

درجن سے زیادہ ممالک میں جانے کا موقع ملا، جرمنی اور جاپان زیادہ پسند آئے، ابھی میں دیکھ رہی تھی، جاپان کا جو نیا بادشاہ بنا ہے، اس نے پہلی بات یہ کی ہے کہ میں اپنی ثقافت کو قائم رکھوں گا، کلچر کا کتنا کردار ہے قوم کی نشوونما کے لیے، ہمیں اپنے بچوں، نئی نسل کو اپنے کلچر سے صحیح انداز میںروشناس کرانا چاہیے، انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے صوفی شعراء کون ہیں، ان کا پیغام کیا ہے، کن علاقوں میں کیسا رقص اور موسیقی ہوتی ہے۔

زندگی سے میں نے کیا سیکھا؟

میں نے ایک بات جو سیکھی ہے کہ آپ ایک دوسرے کا ادب، احترام اور محبت کریں گے تو پھر کامیاب ہوں گے۔ جیسے ہوتا ہے لوگوں کو الگ کرنا، مجھے یہ کام آتا ہی نہیں۔ ابھی تک اللہ کا فضل ہے کہ میں بول رہی ہوں۔ ’’پرانے گانے سہانے‘‘ بہت مقبول پروگرام ہے، سنو ایف ایم 89.4۔ نجم الحسن اورمیں نے پچھلے سال ’’رات چلی ہے جھوم کے‘‘ پروگرام کیا، یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ اس میں ہم گلوکار کے ساتھ شاعر اور موسیقار کا بھی بتاتے تاکہ انہیں بھی کریڈٹ ملے۔ میں نے کبھی کسی کے ساتھ برا کیا نہیں، نہ کسی کا برا چاہا ہے۔ دوسروں کی خوشی سے خوش ہوتی ہوں اور ان کی تکلیف ذاتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک روایتی بات لگے گی لیکن میں کہوں گی کہ کتاب سے اچھا دوست کوئی نہیں، کتاب سے دوستی کریں، کتاب پڑھیں، پرانے اچھے مصنفین کو پڑھیں، اسی طرح الفاظ بڑھیں گے آپ کے پاس، معلومات میں اضافہ ہو گا، چیزوں کی سمجھ آئے گی کہ فلاں چیز کیسے اور کیوں ہوئی۔

فطرت کے خلاف چلنے کا نقصان

میں قدرتی طرز زندگی کی قائل ہوں۔ میری صحت کا راز بھی شاید یہی ہے۔رات کو دس بجے میرے کمرے کی لائٹیں بند ہو جاتی ہیں اور صبح بہت جلدی اٹھ جاتی ہوں۔ آپ اپنی زندگی یا کسی بھی چیز کا ڈسپلن توڑیں گے تو نقصان ہو گا۔ ہم نے نیچر سے اتنی چھیڑچھاڑ کی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔

پروڈیوسر: کل اور آج

پہلے دور میں پروڈیوسرکا بڑا کردار ہوتا تھا۔ وہ بہت قابل لوگ تھے۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ کسی سے تعلق ہے یا کوئی کام ہے تو اسے کردار دے دیا، اداکار بنا دیا، وہ میرٹ پر فیصلے کرتے تھے۔ میں نیوز کاسٹر شاید اچھی نہیں ہو سکتی، میں اداکار شاید اچھی نہیں ہو سکتی اور ہر ایکٹر، اینکر بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلے پروڈیوسر کرتا تھا اور اسے اپنے کام کی بھی سوجھ بوجھ تھی۔ دوسری طرف وہ انتظامیہ سے آرٹسٹوں کے حقوق کی خاطر لڑتا تھا۔ اب شاید ایسانہیں ہے اورلوگ اتنی محنت بھی نہیں کرتے۔ ایک دور تھا کہ میرا خواب تھا کہ پروڈیوسر بنوں، یہ اتنی بڑی چیز ہوتی تھی۔

اسلم اظہر جیسی لیڈرشپکی مثال نہیں ملتی

اسلم اظہر صاحب کہا کرتے تھے کہ آپ نے کام کر کے سیکھنا ہے۔ ہم لوگ اس بات کا آج تک برا نہیں مانتے کہ ہماری کوئی اصلاح کردے، ہمیں جو نہیں آتا وہ نہیں آتا، کسی سے پوچھنے میں ہرج تو نہیں، نہ اس سے ہم کم تر ہوجائیں گے۔ جیسے لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ ہم آکسفورڈ، کیمبرج سے پڑھے ہیں، اسی طرح اسلم نے ہمارے میں یہ بات ڈال دی تھی کہ ہم ٹیلی ویژن سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان ٹیلی ویژن کی ہمارے لیے وہی اہمیت تھی جو آکسفورڈ والے کے لیے آکسفورڈ کی ہوتی ہے۔ میں بہت فخر کرتی ہوں کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے تعلق رہا، جن سے ایسی بڑی بڑی شخصیات منسلک رہیں۔ میں جس وقت اناؤنس کرتی تھی: ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘ ، مجھے لگتا تھا کہ سب کچھ کہہ دیا۔ آپ ٹی وی کے جس پرانے آرٹسٹ سے پوچھ لیں، وہ اس کی کامیابی کے لیے اسلم اظہر صاحب کا نام لے گا۔ ایسا کیوں ہے۔ کسی ادارے کا سربراہ بننے والے کو سوچنا چاہیے کہ اس شخص میں ایسی کیا خوبی تھی کہ ہر کوئی اس کامعترف ہے۔

ریڈیو کو تباہ نہ ہونے دیں

جتنے بھی بڑے آرٹسٹ ہیں، طارق عزیز، قوی خاں، سلیم ناصر، مصطفی قریشی، محمد علی، شجاعت ہاشمی، طلعت حسین اور بہت سے لوگ۔ یہ سب ریڈیو نے بنائے۔ اسے تباہ مت ہونے دیں، لیکن ریڈیو کو جب تک کوئی پروفیشنل نہیں چلائے گا، ریڈیو کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ریڈیو سے پیار کرتا ہے، جسے کام آتا ہے اور وہ کام کرنا چاہتا ہے، یہ افسری یا ٹائم پاس کرنے کی جگہ نہیں ہے، وہاں سلیم گیلانی صاحب جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جوخود بیٹھے ہوئے ہیں اور عابدہ پروین سے دکنی کی غزل گوا رہے ہیں۔ صرف میٹنگز کرنے سے نہیں کام چلتا، ریڈیو پاکستان ایک بڑا نام ہے، اس کو ایک ہاتھی ہونا چاہیے تھا اس وقت، جس کی ایسی عمدہ شروعات تھیں، یہاں سے کیسی کیسی آوازوں نے کہا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ اس کی قدر ہوتی تھی۔ ریڈیو پاکستان نے بہترین میوزک ڈائریکٹر دیئے۔ریڈیو ٹھیک ہو گا تو اس کے اچھے اثرات فلم اور ٹی وی پر بھی نظر آئیں گے۔ اگر آپ اسے نہیں چلا سکتے تو پرائیوٹائزکر دیں تاکہ نئے لوگ اس میں جان ڈال سکیں۔

حکومت آرٹسٹوں کی سرپرستی کرے

لوگ کہتے ہیںکہ اب آرٹسٹ آتے ہیں اور تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے نہیںپوچھا کہ کتنے پیسے دیں گے؟ میں کہتی ہوں کہ وہ بھی ٹھیک کرتے ہیں، اگر ہمیں گھر سے سپورٹ نہ ہوتی تو ہم کہاں یہ سب کچھ کر پاتے، میری والدہ جنہوں نے پچاس سال آپ کے بچوں کو تہذیب سکھائی، ان کے پاس تو اپنا گھر بھی نہیں تھا۔ یہ سٹیٹ کی ذمہ داری کیوں نہیں ہے، ہر ایک کی کالونی ہوتی ہے جوڈیشل کالونی، صحافی کالونی وغیرہ۔ کہیں آپ نے سنا ہے کہ آرٹسٹوں کو کہیں چار گھر بنا کے دیئے ہوں، یہ تصور ہی نہیں ہے۔n

وزارت خارجہ اور عید کا چاند
ٹی وی کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ہم سب لوگ اکٹھے بیٹھے تھے کہ باہر ڈھول بجنے کی آواز سنائی دی، جس کا مطلب تھا کہ عید کا چاند نظر آگیا۔ اسلم اظہر صاحب کے کہنے پر طارق عزیز باہر گئے اور تصدیق کی کہ چاند نظر آ گیا ہے۔ طارق کو میں نے کہا کہ عید کی انائونسمنٹ میں کروں گی۔ میں اسلم صاحب کے پاس گئی اور پوچھا کہ مجھے کیا کہنا ہے، وہ انگریزی میں بتاتے تھے ، کہنے لگے منسٹری آف انٹیریئر کے مطابق چاند نظر آ گیا ہے ، آپ سب کو مبارک ہو کہ کل عید ہو گی۔ تو ہم گئے انائونسمنٹ کرنے، جو پروگرام چل رہا تھا اسے روکا، اب ہم جاتے ہوئے اس جملے کا اردو میں ترجمہ کر رہے ہیں، جس کم بخت نے اردو ہی کبھی نہیں پڑھی تو میں نے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر پڑھا: ’’خواتین و حضرات ۔۔۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے اور کل عید ہو گی، آپ سب کو بہت مبارک ہو۔‘‘ گورنر صاحب بھی شاید ٹی وی دیکھنے کا کام کرتے تھے، انہوں نے فوراً فون کیا کہ وزارت خارجہ کب سے چاند نظر آنے کا اعلان کرنے لگی ہے۔ مجھے اس وقت منسٹری آف انٹریئر کی اردو نہیں آتی تھی، اسلم صاحب نے بتایا کہ اس کا مطلب تو وزارت داخلہ ہوتی ہے۔ خیر انہوں نے غلطی کو اپنے اوپر لے کر معاملے کو سنبھال لیا۔

’’ سانپ کے خوف کے باوجود انائونسمنٹ کرتی رہی‘‘
جب ہم پنڈی میں آئے، چکلالہ کی بیرکس میں ٹی وی کا سٹوڈیو تھا۔ اس کی اتنی خستہ حالت تھی کہ جی ایم کے کمرے سے جب ہم چل کے سٹوڈیو جاتے تو کئی دفعہ ٹخنوں سے اوپر تک پانی سے گزر کر جانا ہوتا۔ جوتے اور پائوں خراب ہو جاتے۔ ہم ادھر سے گزر کے جاتے اور اناونسمنٹ کرتے۔ ایک دفعہ میں اناونسمنٹ کر رہی تھی اور کل کے پروگراموں کی تفصیل بتا رہی تھی۔ مجھے یاد تھا کہ ریڈیو پاکستان جو راولپنڈی میں پشاور روڈ پرہے، اس کی درازوں سے بھی سانپ نکلتے تھے، پرانی بوسیدہ عمارت تھی۔ اب ہمارے سٹوڈیو کی چھت سے کوئی گرم چیز میری گود پرگری، انائونسمنٹ کے دوران میں نہ نیچے دیکھ سکوں، مجھے وہی یاد تھا سانپ، انائونسمنٹ تو میں نے جلدی سے کر دی۔ پھر بعد میں بہت چیخیں ماریں، دیکھا تو پتا چلا کہ بلی کا بچہ تھا، اس نے میائوں بھی نہیں کیا کہ پتا چل جاتا، خیر اس وقت تو بس یہی لگتا تھا کہ اب مرجائوں گی، اتنا دل دھڑکا کہ سانپ ہے اور ہم بول رہے ہیں اور اب ہم مر جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔