عدالتی حکم عدولی پر 500 پولیس افسران و اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم

شاکر سلطان  منگل 21 مئ 2019
بعض مقدمات 10 سال سے زیر التوا، سیکڑوں مقدمات عدم پیروی پر داخل دفتر کر دیے گئے
فوٹو:فائل

بعض مقدمات 10 سال سے زیر التوا، سیکڑوں مقدمات عدم پیروی پر داخل دفتر کر دیے گئے فوٹو:فائل

کراچی:  کراچی کی مختلف عدالتوں نے عدالتی احکام نظرانداز کرنے اور مقدمات کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں پولیس پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کیاہے اور 500 پولیس افسران واہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

تین عدالتوں نے متعلقہ علاقوں کے ایس ایس پیز کو پابند کیاہے کہ وہ اپنے ماتحت عملے کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کریں۔ کسی بھی نوعیت کا فوجداری مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف اپنی تفتیش مکمل کرکے 14 دن میں مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کرے نیز مفرور ملزمان کی گرفتاری یقینی بنائے اور مقدمے کی سماعت کے دوران کیس پراپرٹی سمیت عدالت کو مطلوبہ تمام قانونی تقاضے پورے کرے اور خود استغاثہ سے متعلق اپنے بیانات قلمبند کرانے کیلیے پیش ہوں تاکہ عدالت کو مقدمات نمٹانے میں کسی قسم کی مشکلات اور دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور مقدمے کی فوری اور بروقت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔

سندھ پولیس کے پیشہ ور اور فرض شناس افسران کی جانب سے عدلیہ سے تعاون اور عدالتی احکام کی بجا آوری کے باعث ماضی میں کئی مقدمات کے فیصلوں میں جرائم پیشہ عناصر کو عدالتوں کے ذریعے نشان عبرت بنایا جاچکاہے ان مقدمات کی فوری کارروآئی اور بروقت فیصلوں میں ذمے دار پولیس افسران و اہلکاروں کا کلیدی کردار رہاہے تاہم پولیس میں ایسے غیرذمے دار اور ہٹ دھرم افسران واہلکاروں کی بھی کوئی کمی نہیں جنھوں نے عدالتی احکام کی خلاف ورزی کو اپنا وتیرہ بنالیاہے یہ افسران مقدمات کی سماعت کے موقع پر ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ، عدالت انھیں گواہی کیلیے طلب کرے۔

چالان یا مال مقدمہ پیش کرنے کا حکم دے یا مفرور ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا پابند کرے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، سٹی کورٹ میں دوچار نہیں بلکہ ہزاروں ایسے مقدمات ہیں جن میں پولیس کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث گزشتہ کئی سال سے کوئی پیشرفت نہیں ہورہی بعض مقدمات گزشتہ 10 سال سے کارروائی سے محروم ہیں جبکہ سیکڑوں مقدمات عدم پیروی کے باعث داخل دفتر کردیے گئے ہیں عدالتوں کی جانب سے کئی کئی سال تک طلبی کے نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود تفتیشی افسران پیش ہوتے ہیں اور نہ عدالت کے سمن کا کوئی جواب دیتے ہیں۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے آئی جی، ڈی آئی جی سمیت پولیس کے دیگر اعلیٰ افسران کو بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت عملے کو عدلیہ کا تابع کرنے کیلیے فوری اقدامات کریں اور انھیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں تاکہ ان کے بیانات ریکارڈ کیے جاسکیں تاہم اعلیٰ افسران نے بھی جیسے عدالتی احکام کی خلاف ورزی کو اپنا اولین فرض سمجھ لیا ہے کیونکہ ماتحت پولیس افسران و اہلکاروں کی جانب سے بڑی ڈھٹائی سے عدالتی احکام کو روندنے کا سلسلہ جاری ہے اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے ماتحت عملے کو عدلیہ کا تابع کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

پولیس کی اسی غفلت اور لاپرواہی کے باعث عدالتوں میں مقدمات میں پیشرفت ممکن نہیں ہوتی اور پولیس کی کوتاہی کی وجہ سے عدالتوں کی جانب سے ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔