اپنا اپنا اسلام؛ آخر کب تک؟

راضیہ سید  جمعرات 23 مئ 2019
اسلام صرف باتوں کا نہیں عمل کا نام ہے۔

اسلام صرف باتوں کا نہیں عمل کا نام ہے۔

غالب کہتے ہیں کہ

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا

سچ ہے کہ جب دوست ہی دل کا درد نہ سمجھیں اور نصحیتں کرنے لگیں تو کسی دشمن کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ عالم اسلام کی بھی گویا یہی حالت ہے کہ کسی کے دکھ درد کی پروا کرنے والا کوئی نہیں۔ کسی کا مسئلہ حل کرنا تو درکنار کوئی اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اگر بالفرض کسی کا مسئلہ سن بھی لیا جائے تو مفت کے بے پناہ مشوروں سے نواز دیا جاتا ہے کہ یوں نہیں یوں کرلو۔

میں یہاں اسلام کی بات نہیں کررہی کیونکہ اسلام تو ایک مکمل دین ہے اور وہ بھی دین فطرت، جو تمام افراد کےلیے واضح حقوق و فرائض متعین کرتا ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ معاشرے کی اصلاح کرنے والے ایسے مدبر افراد کی ذمے داری ہے کہ خود کو اسلام کے اصل رنگ میں بسا کر دنیا کے سامنے اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

آج کا مسلمان صرف نام کا ہی مسلمان رہ گیا ہے۔ آج ہم اسلام کا استعمال دین کی درست معنوں میں تبلیغ کےلیے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیے کررہے ہیں۔ آج ہم سب صرف اسلام کو اس حد تک مانتے ہیں جس حد تک وہ ہمارے فائدے کےلیے ہے اور باقی قواعد جو ہماری ذات یا ہم سے مطابقت نہیں رکھتے ان کو دوسروں پر لاگو کرنے کےلیے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔

آج ہمیں جتنا یقین اپنے جنت میں جانے کا ہے، اس سے کہیں زیادہ یقین دوسروں کے جہنم میں جانے کا ہے۔ خودغرضی کی ایسی بدلی چھائی ہوئی ہے جس نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ وہ شخص تو مسلمان ہی نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ لیکن اپنی پوری زندگی میں ہم انسانیت کا سبق نہیں سیکھتے۔ ہم دوسروں کے جذبات کا خیال کیے بغیر طنز اور تنقید کے اس طرح نشتر چلاتے ہیں، جس سے ہمارے ہی بہن بھائیوں کے جگر چھلنی ہوجاتے ہیں۔

ایک دوسرے کو مسلمان بنانے کی آرزو میں ہم اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اپنی اصلاح کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہی یاد نہیں رہا۔

دین کی تبلیغ بھی اس طرح سے کررہے ہیں کہ بہت سے افراد کے دل ہم سے کھٹے ہوچکے ہیں۔ کسی کو تلاوت قرآن پاک اور نماز پڑھنے کی تاکید کرنا غلط نہیں، لیکن اس کےلیے ہم جو طریقہ کار اپناتے ہیں، وہ یقیناً نامناسب ہوتا ہے۔

ہمارے نبیؐ کے نواسوں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے تو ایک بزرگ کو درست وضو نہ کرتے دیکھ کر کسی تضحیک کا نشانہ نہ بنایا، بلکہ خاندان نبوت کا مان قائم رکھتے ہوئے ان کے سامنے خود وضو کرکے دریافت کیا کہ آپ بتائیے ہم دونوں بچوں میں سے کون ٹھیک وضو کررہا ہے اور یہی حسن سلوک دیکھ کر اس بزرگ نے اپنے طریقہ وضو کی اصلاح کرلی۔

بہت سے لوگ خواتین کو شرعی پردہ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ بات درست بھی ہے، لیکن انہی افراد کے قول و فعل میں بھی تضاد دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہی حضرات جب باہر ہوتے ہیں تو بہت سی خواتین سے دوستیاں بھی رکھتے ہیں اور خلاف شرع کئی امور سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے تو ان کا مؤقف یہی ہوتا ہے کہ ان کی بیویوں کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے اور کوئی سوال بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ ان کا سب نان نفقہ پورا کررہے ہیں۔ اسی طرح کئی خواتین بھی پردے کی آڑ میں غیر شرعی افعال کی مرتکب ہورہی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں دہرا رویہ پروان چڑھ رہا ہے، یعنی خود جو مرضی ہم کرتے ہیں ہمیں درست لگتا ہے اور جہاں کہیں کسی دوسرے سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً اس کو لتاڑ دیتے ہیں کہ تمھیں معلوم نہیں کہ شریعت میں اس کے بارے میں کتنی سخت سزا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کی برکتیں موجود ہیں لیکن ہمارا تبلیغ دین کا وہی طریقہ ہے۔ کیونکہ ہم بازاروں میں بھی جاتے ہیں، مہنگی اشیا بھی خریدتے ہیں، ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں، سارا دن جھوٹ بھی بولتے ہیں اور شام کو مساجد میں نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کے حوالے سے جتنی گڑبڑ آپ نے رمضان میں دیکھی ہوگی، وہ عام دنوں میں نہیں ہوتی۔ معمولی سی تکرار بڑھ کر گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر یہی کہا جاتا ہے کہ میں تمھیں بہت کچھ سنا سکتا تھا لیکن میں روزے سے ہوں۔

ہم نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن اس میں بھی نمائش کا پہلو ہوتا ہے، کہ ہم نے اتنی رکعت نماز ادا کی، ہم نےاتنے قرآن ختم کیے یا اتنی زیارات، حج اور عمرے ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

اسلام صرف باتوں کا نہیں عمل کا نام ہے۔ اگر اسلام نماز کا حکم دیتا ہے تو مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کی بھی ہدایت کرتا ہے۔ لیکن ہمارے اکثر ادارے مزدوروں کو چھ چھ مہینوں کی تنخواہ نہیں دیتے۔
اسلام اگر پردے کا حکم دیتا ہے تو مردوں کےلیے بھی حیا، ایمان اور زینت کا جزو قرار دیتا ہے۔ اسلام اگر تجارت کو پسند کرتا ہے تو جائز منافع کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے اور حرام کمائی سے محل کے محل کھڑے کرلیتے ہیں۔ اسلام حج کا حکم دیتا ہے تو غربیوں اور مساکین کی اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طرح سے مدد کا حکم بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس خیرات ہم ہمیشہ اعلانیہ دیتے ہیں کہ اس سے ہماری کسی نہ کسی طرح شہرت اور خداترسی کا پہلو نکل سکے۔

کہتے ہیں کہ آج کل اچھی باتوں کا اثر اس لیے نہیں ہورہا کیونکہ لکھنے اور پڑھنے والے دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب باتیں دوسروں کے عمل کرنے کےلیے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔