پرانے شکاری نیا جال

عبدالقادر حسن  بدھ 22 مئ 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ان دنوں قومی سیاست میں ایک زبردست کنفیوژن اور مخمصہ پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں کہ عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلائی جائے اور حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے عوام کو ساتھ ملایا جائے لیکن یہ سب کیسے ممکن ہو گا، اس کی کوئی واضح ترکیب کسی اپوزیشن لیڈر کے پاس نہیں ہے ۔ ابھی صرف افطار پارٹیاں جاری ہیں جس میں دوسرے درجے کی اپوزیشن قیادت شرکت کر رہی ہے۔ اگر یہ کہا کہ ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال سے گھبرا کر وزیر اعظم خود مستعفی ہو جائیں ، بچپنے کی بات ہے۔

جب تک وزیر اعظم کے ہوش و حواس سلامت ہیں وہ کیوں مستعفی ہو جائیں۔ اپوزیشن کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم جذبات میں آ کر کوئی بھی غلطی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا ماضی کا ریکارڈ کچھ ایسا ہی ہے لیکن وہ اب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں اور اپوزیشن اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ نادانی میں پھر کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں گے جس کا انھیں فائدہ ہو گا، یہ ان کی نادانی ہے۔ ایسے آسان اور مزیدار کام بار بار نہیں ہوتے، جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے، پھر نہیں ہو گا کیونکہ:

آں  قدح  بشکست  و  آں  ساقی  نہ  ماند

وہ ٹوٹنے والا پیالہ کون تھا اور ساقی کون تھا جو اب باقی نہیں رہا۔ ہماری سیاست میں ساقی بدلتے رہے اور جب ساقی نے یہ سمجھا کہ اب مزید کی گنجائش نہیں رہی تو اس نے پیالہ ہی توڑ دیا لیکن ابھی ساقی مطمئن ہے اور پیالہ ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی ۔

اس وقت عمران خان گو کہ مشکلات سے گزر رہے ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے تو وہ درست نہیں۔ آئین میں ان کی حکومت کو ختم کرنے کی صورت باقی نہیں ۔صدر مملکت ان کو برخواست نہیں کر سکتے، ان کا یہ آئینی اختیار ختم ہو چکا ہے۔ اسمبلی کے اندر عدم اعتماد فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا جو لوگ اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں، وہ یہ جرات نہیں دکھا سکتے اور چاہئیں بھی تو اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ آئین سے باہر ایک صورت یہ ہے کہ ملک کے اندر ایسی افراتفری پیدا کر دی جائے کہ حکومت کا چلنا محال ہو جائے۔

اس پر بحث ہو سکتی ہے اور عوام کے لاتعداد اور سنگین مسائل کا حوالہ دیا جا سکتا ہے لیکن عوام کو کسی بھی عمل کے لیے ایک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں۔ ہماری موجودہ اپوزیشن قیادت کو اپنے سابقہ اعمال پر پچھتانا چاہیے، جب ماضی میں ایک بار انھوں نے بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کو وزارتوں کے عوض بیچ دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کی وزارت میں شامل ہو گئے تھے۔ عوام ا س کو نہیں بھولے تھے کہ ہماری اپوزیشن نے اپنی ماضی کی حکومتوں میںجو گل کھلائے ان کو دیکھ کر اب وہ دودھ کے جلے چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔

عوام کے متحرک نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، اگرچہ ان کے مسائل ماضی کی نسبت کئی ہزار گنا زیادہ ہیں اور انھیں معاشی نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن پھر بھی وہ متامل ہیں اور سوچ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اس لیے عوام کی مدد سے ملک میں وہ صورتحال پیدا کرنی آسان دکھائی نہیں دیتی جس کے سامنے کوئی حکومت زچ ہو کر حکومت چھوڑ دیتی ہے۔ اب ایک صورت مارشل لاء کی ہے جو پاکستان میں ہمیشہ آسان سمجھی گئی ہے بلکہ ہم نے خود دعوت دے کر فوج کو کئی مرتبہ اپنا حکمران بنایا ہے حساب کیا جائے تو اس ملک کی نصف عمر مارشل لاؤں میں گزر گئی ہے لیکن مارشل لاء اب فیشن سے باہر ہو چکا ہے اور پاکستان جیسے ملک میں جس کا بڑی طاقتوں میں چین کے علاوہ کوئی پرسان حال نہیں، اس کی فوج موجودہ حالات میں یہ حرکت نہیں کر سکتی۔ علاوہ ازیں ملک کی جو معاشی صورتحال ہے، فوج کے جرنیل پاگل نہیں ہو گئے کہ وہ اس کی ذمے داری اٹھا لیں جب کہ مارشل لاء کے بغیر بھی ان کی ہر خواہش پوری ہو رہی ہو۔

موجودہ حکومت میں ملک کی عام حالت سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود مجھے کوئی ایسی صورت فی الحال دکھائی نہیں دیتی کہ اس حکومت کے چلے جانے کا کوئی امکان ہو ۔ بہترین صورت یہ ہے کہ حکومت پر سخت دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا رویہ تبدیل کرے بلکہ اپوزیشن اگر ایک لمحہ کے لیے اقتدار کی محبت سے دستبردار ہو جائے اور اپنا پورا زور حکمرانوں کو سیدھا کرنے میں لگا دے تو یہ اس کا ملک پر بڑا احسان ہو گا۔

اپوزیشن والے آیندہ کے چار برسوں میں حکومت کا سخت عوامی احتساب کریں، اس کی درست پالیسیوں کی باتیں کریں اور پانچ برس پورے ہونے پر الیکشن میں آج کے حکمرانوں کو عوام کے سپرد کر دیں۔ وہ جو فیصلہ کریں گے وہی درست ہو گا اور وہی جمہوری ہو گا۔ اس سے قبل بھٹو صاحب بھی اپنے اقتدار کی معیاد کے بعد ایک سال پہلے ہی عوام کے سپرد  ہوئے تھے لیکن انھوں نے الیکشن میں غیر ضروری اقدامات کر کے مارشل لاء کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس بدقسمت ملک کی تاریخ میں دوسرا موقع اب آیا ہے جب میاں نواز شریف بھی اپنی حکومت میں ہی ایک سال پہلے ہی عوام کے پاس پہنچا دیے گئے، اس کا نتیجہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔

گزشتہ دونوں حکومتیں اپنی مقررہ معیاد پوری کرنے کے بعد عوام کے سپرد ہوئیں جو جمہوری روایات کے مستحکم ہونے کی علامت کہی جا سکتی ہے۔ عوام کی یہ خواہش رہی ہے کہ ان کا ملک ایک جمہوری ملک کہلائے اور ان کے حکمران فرض شناس، ذمے دار اور عوام دوست حکمران کہلائیں۔ یہی باوقار اور جمہوری طریقہ ہے ۔ فرض کر لیجیے اگر اس حکومت کو شروع میں ہی ختم کر دیا گیا اور پرانے شکاری نیا جال لے کر آ گئے تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا۔ فرشتے کہاں سے آئیں گے۔

اس لیے اگر اپوزیشن محب عوام ہے تو وہ موجودہ حکمرانوں کو درست ہو جانے کی وارننگ دے اور انھیں مجبور کر دے کہ وہ پورے ملک کو اعتماد میں لے کر اپنی پالیسیاں بنائیں اور اپنے آپ کو جوابدہ ثابت کریں ۔ عوام کے سامنے اگر آپ جوابدہ نہ ہوں اور ان کا احترام نہ کریں تو یہ حکومت کس کام کی اور اس کی کیا حیثیت اور اس کے بل بوتے پر کیا دعویٰ۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو پھر پرانے شکاری عوام پر نیا جال ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔