تحقیق دربارہ قبیلہ ’’طے‘‘

سعد اللہ جان برق  بدھ 22 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

خبر کیا مژدہ جاں فزا، صدائے روح افزا اور خوش خبری اعلیٰ تو آپ سن چکے ہوں گے کہ:

سحرم دولت بیدار بہ بانھیں آمد

گفت ہر چیز کہ آں ’’خسرو شیریں‘‘ آمد

یعنی آئی ایم ایف عرف لکشمی دیوی بلکہ لکشمی بائی نے ’’ہاں‘‘کردی ہے لیکن اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ’’معاہدہ‘‘ ہو گیا، بات بن گئی یا کچھ اور انٹ شنٹ الفاظ استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ بعض نالائق اور ناداں اخباروں وغیرہ میں لکھا بھی ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرضے کا معاہدہ ہو گیا ہے۔

لو یہ ہو گیا، ہوا، کیا، وغیرہ، بہت ہی چھوٹے الفاظ ہیں۔ معاہدہ نہ ہوا ہے نہ ہو گیا ہے بلکہ ’’طے‘‘ پایا گیا ہے اور سب  کچھ اس ’’ط‘‘ کے طوطے میں ہے کیونکہ یہ ’’طے‘‘ کوئی معمولی حرف یا لفظ نہیں ہے بلکہ پورا قبیلہ ہی ’’طے‘‘  میں سمایا ہوا ہے کیونکہ اس ’’طے‘‘  سے پہلے ’’طے‘‘ اور ’’پا‘‘ کا سلسلہ بڑے بڑے ’’طویلوں‘‘ اور ’’ہشت پا‘‘ اداروں محکوں اور سفید ہاتھی عرف وزیروں اور منتخب نمائندوں کی صورت میں ’’طے‘‘ اور ’’پا‘‘ کے لیے صف بندی کر چکا تھا یعنی ’’طویلے‘‘ کے دروازوں پر سفید ہاتھی جھولتے اور جھومنے لگے تھے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ تحقیق نہ صرف ہماری عادت ہے یا پیشہ ہے بلکہ ’’لت‘‘ اور علت بھی ہے اور رحمان بابا نے بہت پہلے کہا ہوا ہے کہ علت اور لت چھوٹ سکتے ہیں لیکن ’’عادت‘‘ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

چنانچہ جیسے ہی وہاں ’’طے‘‘ اور ’’پا‘‘ ہو گیا، ہماری رگ تحقیق نے بھی پھڑکنا شروع کیا کہ آخر  پاکستان میں معاملات، معاہدات، تحفظات مطلب یہ کہ سارے ’’آت‘‘ ہوتے کیے کیوں نہیں جاتے ’’طے پا‘‘ کیوں ہوتے ہیں۔ اور یہ ’’طے‘‘ اور ’’پا‘‘ آخر کون ہیں کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ ٹٹوئے تحقیق کو آئی ایم ایف کا مبارک نام لے کر اسٹارٹ کیا۔ اور اس کا اسٹیرنگ مملکت عربستان کی طرف گھمایا کیونکہ اتنا تو ہم جانتے تھے کہ وہاں ایک قبیلہ ’’طے‘‘ ہوا کرتا تھا جس کا ایک شخص ’’پاکستان‘‘ عرف ’’حاتم طائی‘‘ نام کا ہوا کرتا تھا جو اتنا پاکستان یعنی سخی تھا کہ ایک مرتبہ ایک بھکاری کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنی سواری کا قیمتی اور پسندیدہ گھوڑا تک ذبح کر ڈالا تھا بلکہ ایک کہانی میں تو یہاں تک ہے کہ جب وہ اپنی ’’پاکستانیت‘‘ کا مظاہرہ کرتے کرتے پاکستان یعنی مقروض ترین ہو گیا تو خود کو بھی نیلام کر کے ’’غلام‘‘ بنا لیا تھا۔ غالباً اس زمانے میں بھی کسی قسم کا کوئی آئی ایم ایف ہوتا ہو گا۔ یہیں پر ہمارا ٹٹوئے تحقیق ٹھپ ہو گیا۔ کہ اس کے بعد تاریخ میں حاتم طائی کا کوئی ذکر نہیں آیا۔

ہمارے ذریعہ سفر وسیلہ ظفر خچر راہ ڈفرسن آف ڈفر اینڈ ڈفر نے اس موقع پر مشورہ دیا کہ تحقیق میں حاتم طائی کے نام کے آگے ’’ان ٹر نہیں‘‘ لکھ کر کیسے داخل دفتر کیا جائے۔ لیکن ہم کہاں ماننے والے تھے آخر اتنی اکیڈیموں اور قانون نافذ کرنے والوں نے ہم پر یہ جو اتنی ’’محنت‘‘ کی ہوئی ہے اس کی لاج تو رکھنا تھا۔ یہاں وہاں پوچھا کہ آخر ایک ’’حاتم طائی‘‘ ہی عدم پتہ ہو گیا تھا یا اس وقت کی آئی ایم ایف نے اسے شاید وصولی کے لیے کسی کالے بازار میں نیلام کر دیا ہو گا۔ اس کا باقی سارا قبیلہ کس جہاں میں کھو گیا۔ چلیے وہ ایک بیٹی جس کا ذکر آتا ہے وہ بھی غیر شادی شدہ یا بانجھ ہی ہو گی لیکن باقی تو پورا قبیلہ ’’بنی طے‘‘ تھا، وہ کہاں نقل مکانی کر گیا۔ یہیں پر ایک مرتبہ پھر ہمارا ٹٹوئے تحقیق کام آیا کیونکہ ہماری صحبت میں رہتے رہتے وہ ہم جیسا اور ہم اس جیسے ہو رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ دنیا میں صرف ایک مقام ایسا ہے جو دنیا میں سب سے ’’نیچا‘‘ ہے اور جو چیز بھی کہیں لڑھکتی ہوئی آتی ہے اسی نشیبی سرزمین میں پہنچتی ہے، یہاں تک کہ ہر کیٹگری کے ’’مہاجر‘‘ اور آفات ارضی و سماوی بھی۔ پھر اپنی بات کو  انوری کے فارسی شعر کے حوالے سے مضبوط کرتے ہوئے بولا۔

ہر بلائے کہ زآسماں بود

خانہ انوریؔ تلاش کند

اس کی بات سچ نکلی ہم اس سر زمین مقروضین و حاتمین وطائین پہنچے تو ہر طرف قبیلہ ’’طے‘‘ کی آمد کے قرینے دکھائی دیے، ہر طرف لوگ بھاگ رہے تھے، دوڑ رہے تھے۔ کوئی سخاوت کر رہا تھا ،کوئی لنگر چلا رہا تھا، کوئی کارڈ بانٹ رہا تھا، کوئی ایک خوبصورت خاتون کی تصویریں بانٹ رہا تھا، ہر طرف سخاوت ہی کے نظارے دکھائی دے رہے تھے۔ اور یہ سن کر تو ہمارا کلیجہ چارگز کا ہو گیا کہ وہی قبیلہ ’’طے‘‘ کی روایت چل رہی ہے کہ قرض لے لے کر سخاوت کرنا اور سخاوت کر کر کے قرض لینا۔ یہاں تک کہ ہمارے ٹٹوئے تحقیق کی نشاندہی پر ہم نے دیکھا کہ خسارے والے محکمے اور اس کے وزیر دھڑا دھڑ لوگ بھرتی کر رہے ہیں، دفاتر اور بنگلوں کی آرائش کر رہے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی زیبائش انھی خسارے والوں سے کر رہے ہیں۔ سو ہماری تحقیق مکمل ہوئی قبیلہ ’’طے‘‘ سر زمین عرب سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا تھا اور اب یہاں وہی اپنی مشہور زمانہ ’’سخاوت‘‘ چلا رہا تھا، اس پر مزید روشنی اس بات سے پڑی کہ یہاں کے لوگوں کو عربستان بلکہ عربستانوں سے اتنی محبت بلا وجہ تو نہیں ہے:

میرا تجھ سے ہے پہلے کا ناتا کوئی

یوں ایسے نہیں دل لھباتا کوئی

خلاصہ اس کلام کا یہ ہوا بلکہ ’’طے‘‘ پا گیا کہ آخر یہاں کے سارے چھوٹے بڑے معاملات ’’ہونے‘‘ کے  بجائے ’’طے پا‘‘ کیوں کہلاتے ہیں۔ ’’طے‘‘ اور ’’پا‘‘ کو ’’طے‘‘ پا ہی کہا جائے گا ’’ت‘‘۔ ف یہ تو نہیں:

ہم پرورش اہل رقم کرتے رہیں گے

جو ’’شرم‘‘ ملے اس کو ہضم کرتے رہیں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔