حکومت کی معاشی مشکلات اور اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی

ارشاد انصاری  بدھ 22 مئ 2019
کپتان اور اسکی معاشی ٹیم میدان میں سرگرم ہیں یہی نہیں بلکہ بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے۔ فوٹو: فائل

کپتان اور اسکی معاشی ٹیم میدان میں سرگرم ہیں یہی نہیں بلکہ بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: حکومت نے آئی ایم ایف بورڈ سے چھ ارب ڈالر کے پروگرام کی منظوری کیلئے سٹاف سطح کے معاہدہ میں طے پانیوالی شرائط کوعملی جامہ پہنانا شروع کردیا ہے اور پروگرام کی منظوری کیلئے پیشگی شرائط کے اثرات ملکی معیشت پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

ابھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری دی گئی ہے اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ گیس کی قیمتوں میں کتنا اضافہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے جھٹکے عوام کو محسوس ہونگے، ساتھ ساتھ اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کی بھی آمد آمد ہے اور اس بجٹ میں بھی ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے سخت فیصلے متوقع ہیں اور کوئی بڑے ریلیف کی توقع نہیں ہے کیونکہ مالی بحران کا عالم یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ن لیگ کے طعنوں کے باوجود ہیلتھ کارڈ کا کریڈٹ عوامی اجتماعات میں لیتی رہی ہے اور ابھی بھی لیا جا رہا ہے تھا مگر وفاق کی جانب سے پریمئیم کی ادایئگی نہ ہونے کے باعث بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا حکومتی ارادہ بھی اسد عمر سے وزارت کے قلمدان کے جانے کے ساتھ ہی ملتوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس منصوبے کیلئے وزارت خزانہ کی جانب سے ورکنگ کی گئی تھی اور سرکاری ملازمین کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کے حوالے سے مالی اخراجات سمیت ملازمین اور ان کے لواحقیقن کو ملنے والے علاج و معالج کی سہولیات بارے تمام ورکنگ مکمل کرکے منصوبہ تیار تھا مگر اب یہ منصوبہ فائلوںکی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اس پر وزارت خزانہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔

دوسری جانب چونکہ رواں سہہ ماہی کے دوران پاکستان نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں اربوں ڈالر واپس کرنا ہیں جس کے باعث ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی شدید دباو کا شکار ہیں اور ایسے میں ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے اور مالی بحران سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ناگزیر ہے جس کیلئے سٹاف سطح کا معاہدہ تو طے پا چکا مگر ایل او آئی پر دستخط اور ایم ای ایف پی میں جو پیشگی اقدامات طے پائے ہیں ان کو عملی جامہ پہنانا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے خاص کر جب آئی ایم ایف سے سٹاف سطح کے معاہدہ پر ملکی سٹاک مارکیٹ کی جانب سے جو رد عمل سامنے آیا ہے اس نے حکومتی پریشانی کو مزید بڑھادیا ہے جس کے باعث کپتان اور اسکی معاشی ٹیم میدان میں سرگرم ہیں یہی نہیں بلکہ بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے اور بہت سے اہم مقتدر حلقے بھی ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اپنا بھرپوکردار ادا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس صورتحال کو سنبھالنے کیلئے کپتان کی معاشی ٹیم کے سربراہ حفیظ شیخ اپنی ٹیم کو لے کر ملک کے بڑے سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاملات حفیظ شیخ کے قابو میں آتے دکھائی نہیں نہیں دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب ملکی سٹاک مارکیٹ کوسہارادینے کیلئے حکومت نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کی مدد لینے جا رہی ہے اور اس مقصد کیلئے بیس ارب روپے کا فنڈ قائم کیا جا رہا ہے جس کا انتظام نیشنل انویسٹمنت ٹرسٹ سنبھالے گا اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ حکومت کے فنڈ سے ملکی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرے گا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔ دوسری جانب اب کپتان نے خود بھی ملاقاتیں شروع کی ہیں اور اتوار کو سرکاری تعطیل کے باوجود عمران خان نے ملک کے بڑے کاروباری لوگوں، صنعتکاروں و سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کیں، ان سے اہم معامشی معاملات اور آنے والے بجٹ کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام اور پھر ایمنسٹی سکیم بارے اعتماد میں لیا۔

مگر ساتھ ہی عوامی و سیاسی دباو بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اب یہ حکومت کیلئے مزید بڑا امتحان ہوگاکیونکہ جس تیزی سے موجودہ حکومت عوامی مقبولیت کھو رہی ہے مستقبل قریب میں مہنگائی کا جو سونامی آنے کو ہے وہ مزید حکومتی امیج کو متاثر کرے گا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کرنے کی تیاریاں کر رہی ہیں اور ابھی چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کئے جانیوالے افطار کے اہتمام میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اکٹھ کی سامنے آنے والی تفصیلات بتا رہی ہیںکہ عید کے بعد سیاسی میدان سجنے کو ہے یا اسے مکافات عمل کہہ لیجئے کہ ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت جس احتجاجی سیاست کی بنیاد ڈال کر گئی ہے آج خود اسی احتجاجی سیاست کو فیس کرنے جا رہی ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کو شدید مشکل حالات ملے ہیں مگر ان مشکل حالات کو مشکل ترین بنانے میں حکومت کا اپنا کردار زیادہ ہے۔

اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت جس طرح مسائل کا شکار ہے ایسے میں حکومت اگر کچھ ڈلیور کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو اپوزیشن میں اتنا دم نہیں رہنا تھا کہ وہ کوئی بڑی عوامی طاقت کا مظاہرہ کر پاتی لیکن مہنگائی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے وہ اپوزیشن کو عوامی ایندھن فراہم کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کی جانب سے دیئے گئے افطار ڈنر میں سیاسی جماعتوں کے اکٹھ سے ملکی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے لیکن یہ تو وقت بتائے گا کہ عید کے بعد جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جا رہی ہے وہ کسی متحدہ اپوزیشن کو جنم دے سکے گی یا پہلے کی طرح بے نتیجہ رہے گی اور یہ بھی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو کس حد تک متحد ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو پاتی ہے کیونکہ اپوزیشن کی بیٹھک میں ملک کی نازک معاشی صورتحال، مہنگائی اور عوام کی مشکلات کے حل میں حکومتی عدم دلچسپی جیسے اہم عوامی ایشوز کو لے کر ہی حکومت کے خلاف ایوان کے اندر اور عوامی اسمبلی میں دھمال ڈالنے کو سنٹر پوائنٹ بنایا گیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی نے عیدالفطر کے فوری بعد حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی تجویز دی ہے اور مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آپ پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں اور کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ عوام اپوزیشن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس کے بعد پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کا اپنا نظریہ اور منشور ہے، کوئی ایک سیاسی جماعت پاکستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتی البتہ انکا بھی کہنا تھا کہ عید کے بعد پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج ہوگا اور عید کے بعد مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوگی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ نااہل حکمران جو عوام کے نمائندے نہیں، ان کے اقتدار میں آنے سے ملک ایسے گہرے سمندر میں جا پڑا ہے جس کو سنبھالنا ملک کے تمام زعماء کا فر یضہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی تاریخوں کا فیصلہ کر لیا جائے گا جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔