فرانس سے البانیہ تک

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 23 مئ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے پروڈکٹ ’’کرپشن‘‘ کے خلاف دنیا بھر کے عوام اب سڑکوں پر آرہے ہیں اور پرتشدد احتجاج کر رہے ہیں۔ فرانس اور دیگر ممالک کے بعد اب البانیہ میں عوام سخت مشتعل ہیں اور اپنی نفرت کا اظہار البانوی وزیراعظم کے محل پر پٹرول بم پھینک کر کر رہے ہیں۔ بلقانی ریاست البانیہ میں کرپشن کے خلاف البانوی عوام تین مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں، الیکشن میں دھاندلی اورکرپشن سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ایسی بیماریاں جن کا حال مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا ہوکر رہ گیا ہے۔

البانیہ میں الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف البانوی عوام تین مہینے سے سڑکوں پر ہیں اب وہ تشدد کی طرف آرہے ہیں۔ انھوں نے البانوی وزیر اعظم کے محل پر پٹرول بموں سے حملہ کردیا ہے جس کی آگ کے شعلے البانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر لپک رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تین مہینوں سے الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والے البانوی عوام اب شدید تشدد پر اتر آئے ہیں اور وزیر اعظم کے محل پر انھوں نے پٹرول بموں سے حملہ کردیا ہے جس کے شعلے سرمایہ دارانہ نظام کی سوغات بن گئے ہیں۔ فرانس میں بھی کرپشن کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ مہینوں سے جاری ہے۔

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی پروڈکٹ ہے جو دنیا کے انسانوں کے خون پر پل رہی ہے۔ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور ترقی یافتہ ملکوں کے عوام ہمیشہ پرامن اور مہذبانہ طریقوں سے احتجاج کرتے آئے ہیں لیکن چونکہ اب کرپشن سر سے اونچی ہو رہی ہے لہٰذا ترقی یافتہ ملکوں کے عوام بھی اب تشدد پر اتر آئے ہیں۔

اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے عوام کی جائز آوازکو دبانے کے لیے ایک طاقتور ریاستی مشینری بنا رکھی ہے لیکن جب عوام کا صبر حد سے گزر جاتا ہے تو ریاستی مشینری عوام کے سامنے بے بس ہی نہیں ہوجاتی بلکہ مظاہرین سے مل جاتی ہے۔ 1968 اور 1971 میں جب پاکستان میں حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلیں تو وہ اس قدر بے قابو ہوگئیں کہ سارا پاکستان دھوئیں کی لپیٹ میں آگیا۔ جب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو فرانس کے عوام ہوں یا البانیہ کے یا پاکستان کے سڑکوں پر آجاتے ہیں اور اپنے غصے اور نفرت کا مظاہرہ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں جنھیں روکنا ریاستی مشینری کے بس کی بات نہیں رہتی۔ دنیا کے تقریباً ان تمام ملکوں میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے صورتحال یہ ہے کہ ہر ملک کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ بھوک، بیکاری، بیماری کے آزار میں مبتلا ہے اور 2 فیصد دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ یہ  طبقہ اربوں روپوں کی کرپشن کا ادراک کر رہا ہے۔

انتخابات میں دھاندلی اشرافیہ کا ایک مستقل جرم ہے اس جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے چونکہ اقتدار میں رہنا ضروری ہے لہٰذا دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا اشرافیہ کی روایات کا حصہ ہے۔ البانیہ میں بھی اہل سیاست نے دھاندلی کی اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری جمہوریتوں میں اگر فوجی جنتا حد سے بڑھی ہوئی اشرافیہ کی کرپشن کی وجہ سے کرپٹ حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہیں تو یہ کام بغاوت کے زمرے میں آجاتا ہے اور نسل در نسل دھاندلی اور دباؤ کے ذریعے اہل سیاست اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں تو یہ عین جمہوری عمل ہوتا ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں ایسی کوئی سبیل ہے کہ دھاندلی اور دولت کے زور پر انتخابات جیت کر اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کو قومی مجرم گردان کر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے؟

ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ انتخابات میں کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کا استعمال قانون کے عین مطابق ہے۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے لیا جاتا ہے اور جمہوریت کی یہ تعریف سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے کی ہے۔ کیا فرانس میں جمہوریت کی اس تعریف پر عمل کیا جا رہا ہے، کیا البانیہ میں جمہوریت کو اس کی تعریف کے مطابق چلایا جا رہا ہے، کیا پاکستان میں رائج جمہوریت، جمہوریت کی تعریف پر پوری اترتی ہے؟

یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہر جمہوری ملک کے عوام صدیوں سے مانگ رہے ہیں۔ جب اس سوال کا جواب عوامی جمہوریت کے مطابق عوام کو نہیں ملتا تو پھر البانوی عوام اپنے وزیر اعظم کے محل پر پٹرول بم پھینکتے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ فرانس اور البانیہ میں عوامی تشدد عوام کی مایوسی کی انتہا ہے۔ دنیا میں رائج جمہوریت کے تحفظ کے لیے ریاستی مشینری رکھی گئی ہے جو فوج، پولیس، رینجرز وغیرہ پر مشتمل ہے بلاشبہ یہ مسلح ریاستی مشینری عموماً ’’ناراض عوام‘‘ کو اسلحے اور قانون کے ذریعے دبا دیتی ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب عوام کا صبر جواب دے جاتا ہے اور تشدد اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ فرانس کے عوام ہوں یا البانیہ کے عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پھر امن آنکھیں جھکائے کھڑا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔