وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا مقدمہ

سلمان عابد  جمعرات 23 مئ 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر عثمان بزدار کی تقرری وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک حیران کن فیصلہ تھا ۔ لوگوں نے عثمان بزدار کا نام بھی اسی وقت سنا جب ان کی نامزدگی ہوئی تھی ۔ بہت سے سیاسی پنڈت وزیر اعظم عمران خان کے اس فیصلہ کو ایک بڑے سیاسی جوا سے تعبیر کرتے تھے ۔

ان کے بقول پنجاب میں سیاسی لڑائی ایک کمزور وزیر اعلیٰ کے مقابلے میں ایک مضبوط، متحرک اور فعال وزیر اعلیٰ ہی لڑسکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین بھی عثمان بزدار کی تقرری پر سخت تنقید کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان کے سیاسی مخالفین کو تو خوش ہونا چاہیے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمزور فرد کو وزیر اعلیٰ بنا کر عملی طور پر ان کی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ اگر عثمان بزدار اپنی کارکردگی  نہیں دکھاتے تو اس کا براہ راست سیاسی فائدہ ان کے سیاسی مخالفین کو ہی ہو گا۔ لیکن پہلے دن ہی سے عثمان بزدار کو میڈیا سمیت سیاسی محاذ پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کا وزیر اعلیٰ پنجاب پر اعتماد اوران کو ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کا خطاب دینا وزیر اعلیٰ کو زیادہ پراعتماد بناتا ہے۔

بہت سے لوگ یہ منطق دیتے تھے کہ بہت جلد وزیر اعظم عمران خان کو احساس ہو جائے گا کہ ان کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا اوراب ان کی جگہ کسی اورکو لانا ہو گا۔ تحریک انصاف کے اپنے اندر ’’طاقتور فریقین‘‘ کی باہمی لڑائی اورایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا عمل بھی بہت زیادہ ہے ۔ تحریک انصاف میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو عثمان بزدار کی تبدیلی چاہتا ہے اورپس پردہ اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ۔کچھ ماہ قبل تو سیاسی پنڈتوں نے تجزیہ پیش کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال یہ سب باتیں درست ثابت نہیں ہوئیں۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بنیادی طور پر دھیمے مزاج کے اورکم گو فرد ہیں۔ سیاسی محاذ پر اونچی آواز میں بات کرنے کا وہ ہنر نہیں جانتے اور بہت زیادہ کنٹرولڈ حیثیت سے کام کرنے کا ہنر بھی نہیں جانتے۔ ان کی دیانت پر بھی کوئی بڑا مسئلہ سامنے نہیں آیا جو مخالفت کی جاتی ہے اس کی اہم وجہ ان کی انتظامی صلاحیت ہے۔ لیکن یہاں دھیمے مزاج کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو داد دینی ہوگی کہ پنجاب جیسے اہم اوربڑے صوبہ میں وہ خاموشی سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ مخالفین کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے وہ خاموشی سے سیاسی حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ان کے بقول وہ اپنے سیاسی مخالفین کا جواب باتوں میں شدت پیدا کرکے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دیں گے۔ پنجاب میں دو بڑے طاقتور حکمران خاندانوں کی حکمرانی رہی ہے۔ایک طرف شریف برادران اوردوسری طرف پانچ برس چوہدری برادران کا سکہ چلتا تھا۔ ان طاقتور حکمرانوں کی موجودگی میں لوگ عثمان بزدار کے مقابلے میں ایک طاقتور خاندان کے کسی بڑے فرد کو ہی وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے۔

’’گیلپ سروے آف پاکستان‘‘ نے اپنی جائزہ رپورٹ میں پاکستان کے چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کی سیاسی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ان کا اسکورنگ چارٹ پیش کیا ہے ۔جس کے مطابق چاروں وزرائے اعلیٰ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سب سے بہتر رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 37فیصد کارکردگی سے وہ اپنے صوبہ کے شہریوں کو مطمئن کرسکے ہیں ۔جب کے ہم اگر دیگر وزرائے اعلیٰ کی طرف دیکھیں تو خیبر پختونخوا میںوزیر اعلیٰ محمود خان کی کارکردگی 34فیصد، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کی بنیاد، 30فیصد، جب کہ سندھ میں سید مراد علی شاہ کی کارکردگی 27 فیصدرہی ہے۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکی حالیہ کارکردگی پر یہ مثبت رپورٹ بہت سے لوگوں کو یقینی طورپر قبول نہیں ہوگی۔ لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے سے لے کر اب تک ان کی کارکردگی میں یقینی طور پر بہتری آئی ہے، وہ اب کافی حد تک متحرک اور فعال بھی نظر آتے ہیں اورطوفانی دوروں کی مدد سے مختلف شہروں کے حالات کا جائزہ بھی لیتے ہیں اورکابینہ کے مسلسل اجلاس  کا انعقاد بھی ان کی کامیابی ہے ۔ اول اپنی حکومت اور کابینہ وانتظامیہ پر کنٹرول۔ دوئم بہتر ٹیم کا چناؤ، سوئم کابینہ کے باقاعدگی سے اجلاس، چہارم صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں مسلسل شرکت، پنجم ارکان اسمبلیوں سے رابطہ سازی، ششم امن و امان کی صورتحال جیسے اہم معاملات شامل ہوتے ہیں۔

اسی رپورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی کارکردگی کی شرح 55 فیصد تھی ۔ان نتائج کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو کسی بڑی سیاسی خوش فہمی کا بھی شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے مخالفین جو پارٹی میں بھی ہیں ان کو ناکام بنانے اورتبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف واحد علاج حکومتی کارکردگی کو اور زیادہ بہتر بنانا ہے۔ وہ خاموشی کا روزہ توڑیں اور مختلف فریقین سے براہ راست رابطہ سازی کریں اورلوگوں کو اعتماد میں لیں ۔ وہ حکومت اورپارٹی کے درمیان بھی موجود خلیج کو کم کریں اور خود پارٹی کے اہم پرانے لوگوں کو ساتھ ملا کر اپنے صوبہ کی حکمرانی کے نظام میں مزید بہتری پیدا کریں۔ نوجوان اور عورتیں ان کی جماعت کی اہم طاقت ہے، ان کو زیادہ فعال کرکے وہ نچلی سطح پر اچھی حکومت کے تاثر کو پیدا کرسکتے ہیں ۔ بیوروکریسی پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیں ۔ اگر  وہ ایک مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام تشکیل دے سکے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی ۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اپنی ٹیم پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ ان کی میڈیا ٹیم میں بہت خامیاں ہیں اور وہ حکومت اور وزیر اعلیٰ سے زیادہ اپنی مقبولیت پیدا کرکے وزیر اعلیٰ کو پیچھے رکھنا چاہتی ہے ۔ان کو بنیادی نوعیت کے کام جن میں بہت زیادہ وسائل بھی خرچ نہیں ہوتے صرف حکمت عملی سے بہتر کیے جاسکتے ہیں ۔ان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اپنی ٹیم کی مدد سے خود کو اچھا وزیر اعلیٰ ثابت کریں، یہ کام لفظوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات میں موثر کارکردگی سے ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔