مودی کی جماعت بی جے پی نے بھارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی

ویب ڈیسک  جمعرات 23 مئ 2019
بھارتی ایوان زیریں کے انتخابات 7 مرحلوں میں مکمل ہوئے فوٹو: فائل

بھارتی ایوان زیریں کے انتخابات 7 مرحلوں میں مکمل ہوئے فوٹو: فائل

نئی دلی: بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی ہے جس کے بعد نریندرا مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

بھارت میں 29 ریاستوں، دارالحکومت دہلی اور مرکز کے تحت چلنے والے 6 علاقوں کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور غیر حتمی نتائج سے محسوس ہوتا ہے کہ  بی جے پی کی نفرت آمیز انتہا پسندانہ پالیسیوں اور چال بازیوں کا سحر جنونی ہندوؤں پر تاحال قائم ہے۔

بی جے پی کی چال بازیاں چل گئیں 

ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور زیادہ تر حلقوں میں 90 فیصد سے زائد گنتی مکمل ہوچکی ہے جس کے تحت بی جے پی اتحاد کو 348، کانگریس اتحاد 78، مہاگتھ بندھن 18 اور دیگر مقامی جماعتوں کو 98 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔

بی جے پی کی پُر فریب کامیابی، کانگریس کی سست رفتار کامیابی اور مقامی جماعتوں کا کلین سوئپ 

پلوامہ حملے کی ڈرامہ بازی، فوجیوں کی تصاویر کے استعمال اور ابھی نندن کو ہیرو بنانے کی پُر فریب چالوں سے بی جے پی ایک بار پھر ووٹرز کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ راجھستان اور گجرات میں کلین سوئپ کرتے ہوئے دیگر اہم ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کرلی جب کہ تامل ناڈو، کیرالہ اور پنجاب میں کانگریس کو برتری حاصل ہو گئی۔ تلنگانہ، ویسٹ بنگال، آندھرا پردیش اور اوڈیشا میں مقامی جماعتوں نے تینوں بڑے سیاسی اتحاد کو پچھاڑ دیا۔

انتخابات میں حصہ لینے والے بڑے سیاسی اتحاد 

انتخابات میں تین بڑے سیاسی اتحاد حصہ لے رہے ہیں، حکمراں جماعت بی جے پی کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس اور تیسرا اتحاد مہاگتھ بندھن ہے جب کہ دیگر مقامی جماعتیں ان کے علاوہ ہیں۔

مختلف ریاستوں سے موصول ہونے والے نتائج

مقبوضہ کشمیر

مقبوضہ کشمیر سے کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی، پلوامہ حملے کے ذریعے ہندو جذبات کو اکسانے میں کامیاب رہنے والی بی جے پی نے 6 میں 3 نشستیں حاصل کرلیں جب کہ دیگر مقامی جماعتوں نے 3 نشستوں پر کامیابی اپنے نام کی۔

اترپردیش

اترپردیش کی 80 نشستوں کے میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 60 پر برتری حاصل کرکے سب کو حیران کردیا جب کہ کانگریس کی قیادت میں قائم اتحاد یونائیٹڈ پروگرسیو الائنس صرف ایک نشست حاصل کرپائی۔ تیسرے بڑے انتخابی اتحاد مہاگتھ بندھن 19 نشستیں لے اُڑا۔

مہاراشٹرا
مہاراشٹرا میں 48 نشستوں کے لیے معرکے میں بھی بی جے پی کے اتحاد نے 43 نشستوں پر میدان مار لیا ہے، مودی کی مسلمان اور اقلیت دشمن پالیسی سے خوش ہندو ووٹرز نے حکمراں جماعت کو جیتوا دیا جب کہ کانگریس صرف 4 نشستیں ہی لے پائی۔

مغربی بنگال
مغربی بنگال میں تنیوں بڑے سیاسی اتحادوں کو چھوٹی اور مقامی جماعتوں نے پیچھے چھوڑ دیا اور 42 میں سے 24 نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی اتحاد 17 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جب کانگریس یہاں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی اور صرف 1 نشست ہی لے سکی۔

 بہار
بہار میں بھی بی جے پی اتحاد نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے 40 میں سے 38 نشستیں حاصل کرکے مخالفین پر واضح برتری حاصل کی جس کے باعث کانگریس کے ہاتھ صرف 2 نشستیں ہی آسکیں۔

تامل ناڈو
تامل ناڈو وہ واحد ریاست ہے جس میں کانگریس نے بھرپور کامیابی سمیٹی اور 38 میں سے 30 نشستوں پر بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کیا، دیگر مقامی جماعتوں نے 5 نشستیں حاصل کرکے بی جے پی کو مزید دھچکا پہنچایا۔ بی جے پی صرف 3 نشستیں لے سکی۔

 مدھیہ پردیش
بی جے پی کے مضبوط گڑھ مدھیہ پردیش میں بھی حکمراں جماعت کا پلڑا بھاری رہا، 29 میں 28 نشستیں لے کر بی جے پی نے کانگریس کے لیے صرف ایک نشست ہی چھوڑی۔ اس ریاست میں بی جے پی کی کامیابی تسلسل جاری ہے۔

کرناٹکا
کرناٹکا میں بھی مودی سرکار کا فریب کا چلا گیا اور 28 میں 23 نشستیں بی جے پی اتحاد کے ہاتھ آئیں جب کہ کانگریس 3 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے دیگر دو نشستیں مقامی جماعتوں نے حاصل کیں۔

گجرات 
گجرات کا اکھاڑا بھی گجرات کے قصاب مودی کی جماعت بی جے پی کے ہاتھ رہا جہاں مخالف جماعتوں کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے 26 کی 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلین سوئپ کیا۔ ہندو انتہا پسندی جیت گئی۔

آندھرا پردیش 
آندھرا پردیش کے باسیوں نے تینوں بڑے سیاسی اتحاد پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، یہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی اتحاد، کانگریس اتحاد اور مہاگتھ بندھن کو سر توڑ کوششوں کے باوجود ایک بھی نشسات نہ مل سکی۔ ریاست کی 25 کی نشستوں پر مقامی اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اراکین نے کامیابی حاصل کی۔

راجھستان
راجھستان کا میلہ بھی مکمل طور پر  بی جے پی اتحاد ’ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ کے نام رہا جہاں 25 کی 25 نشستیں پر کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو چاروں شانے چت کردیا۔

اوڈیشا
اوڈیشا دوسری ریاست ہے جہاں پلڑا تین انتخابی اتحادی جماعتوں کے مقابلے میں دیگر مقامی جماعتوں کا بھاری رہا۔ اوڈیشا کی 21 نشستوں میں سے 14 نشستیں دیگر چھوٹی جماعتیں بڑے اتحادیوں سے لے اُڑیں جب کہ بی جے پی اتحاد کو 7 نشستیں مل سکیں۔

کیرالہ 
کیرالہ کانگریس کے لیے دوسری خوش بخت ریاست ہے جہاں 20 نشستوں کے لیے میدان سجا اور 15 نشستیں کانگریس اتحاد کی جھولی میں گریں جب کہ دیگر جماعتوں نے 4 اور بی جے پی صرف نشست ہی حاصل کرسکی۔

تلنگانہ
تلنگانہ وہ تیسری ریاست ہے جہاں ووٹرز نے تینوں بڑے سیاسی اتحاد کے بجائے مقامی جماعتوں کو سرخرو کیا، تلنگانہ کی 17 میں سے 9 نشستیں دیگر جماعتوں کے ہاتھ آئیں جب کہ 4 کانگریس اور 4 ہی پر بی جے پی اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔

جھاڑ کھنڈ
جھاڑ کھنڈ کا اکھاڑا 14 میں سے 9 نشتیں حاصل کر کے بی جے پی اتحاد کے نام رہا، کانگریس اتحاد 3 نشستوں سے جیتی اور دیگر جماعتوں نے 2 نشستیں حاصل کیں۔

  آسام
آسام میں غیر ملکی تارکین وطن اور بالخصوص بنگالی و روہنگیا پناہ گزینوں کیخلاف امتیازی کارروائی پر خوش ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کو 14 میں سے 10 نشستوں پر کامیابی دلوا دی، دیگر جماعتوں نے 3  جب کہ کانگریس صرف ایک سیٹ لے پائی۔

پنجاب
پنجاب کی 13 میں 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے کانگریس کی گرتی ہوئی مجموعی پوزیشن کو قدرے بہتر سہارا ملا، پنجاب سے بی جے پی اتحاد نے بھی 4 نشستیں لیکر خطرے کی گھنٹی بجادی جب کہ ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔

چھتیس گڑھ
چھتیس گڑھ بی جے پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 11 میں سے 9 نشستیں بی جے پی اتحاد بآسانی لے اُڑا جب کہ کانگریس اتحاد کو محض دو نشستیں ہی مل پائیں۔

ہریانہ
ہریانہ کی 10 نشستوں میں سے 9 حکمراں جماعت بی جے پی کے انتخابی اتحاد کو ملیں اور کانگریس کے ہاتھ صرف ایک سیٹ آسکی۔

دارالحکومت دہلی میں حکمراں جماعت بی جے پی کی حکمرانی قائم رہی اور 7 کی نشستوں پر کانگریس کو صفر پر آؤٹ کردیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں: وزیراعظم کی الیکشن میں کامیابی پر مودی کو مبارکباد

واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 11 اپریل کو شروع ہوئے اور 7 مرحلوں میں 19 مئی کو مکمل ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔