فرینڈلی فائرنگ

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 24 مئ 2019

افغانستان کے صوبہ ہلمند میں طالبان اور افغان پولیس کے درمیان جھڑپ جاری تھی کہ نیٹو نے خود افغان پولیس اہلکاروں پر غلطی سے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 17 اہلکار ہلاک اور 14 زخمی ہو گئے۔ ہلمند کے گورنر نے نیٹو فضائی حملے میں افغان پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔

نیٹو نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ جنگوں میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، اس پر فرینڈلی فائر جیسی سہولتوں کی وجہ سے جنگیں لڑنے والے سپاہیوں کو اور چھوٹ مل جاتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ نیٹو کی فوج نے فرینڈلی فائرنگ کا بہانہ اختیار کیا ہے اس سے پہلے بھی ایسے کئی کیسز سامنے آتے رہتے ہیں۔

ہماری دنیا میں غریب عوام کے خواہ ان کا تعلق افغان پولیس اہلکاروں سے ہو یا کسی اور ایجنسی سے سرکاری اہلکاروں کی موت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی چونکہ یہ اموات افغان حکومت کی اتحادی نیٹو فورس کی فائرنگ سے ہوئیں، اس لیے یہ ایک پانچ کالمی سرخی کی خبر بن گئی ورنہ جنگوں میں سیکڑوں نہیں ہزاروں سپاہی مارے جاتے ہیں جس پر کسی کو افسوس ہوتا ہے نہ کوئی تحقیقاتی کمیٹی بنتی ہے۔

ہماری دنیا کی تاریخ جنگوں اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکتوں سے بھری ہوئی ہے اور ان ہلاکتوں پر تشویش کے بجائے فخر کیا جاتا ہے اگر نیٹو کی فائرنگ سے افغان پولیس اہلکاروں کے بجائے افغان جنگجو 17کے بجائے سترہ سو مارے جاتے تو نہ اس کا کوئی نوٹس لیتا نہ کوئی تحقیقاتی کمیٹی بنتی۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت نے جنگ کے لیے پولیس اور فوجی اہلکار بھرتی کیے بے روزگاری کے اس دور میں عام آدمی روزگار کے حصول کے لیے جو خطرناک ذمے داریاں اٹھاتا ہے ان میں سب سے زیادہ خطرناک ذمے داری فوجیوں کی ہوتی ہے خواہ ان کا تعلق افغان اہلکاروں سے ہو یا نیٹو کے فوجیوں سے۔ عام طور پر زندہ رہنے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے عام آدمی فوج جیسے خطرناک ذمے داریوں کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے فوجی جوانوں کو خوشی سے جان دینے کے لیے قومی مفاد اور قومی وقار جیسے فلسفے گھڑ رکھے ہیں جس کا شکار عام غریب آدمی ہوتا ہے۔ ہلمند میں نیٹو کی فوج نے افغان پولیس اہلکاروں پر فرینڈلی فائرنگ کھول دیے۔

اگرچہ ہلمند کے گورنر نے اخلاقاً اس ظالمانہ کارروائی کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے لہٰذا معاملہ چلتا رہے گا، ادھر  ہلاک پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کی خبریں میڈیا کی زینت بن گئیں ورنہ اس قتل سے کوئی واقف نہ ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خاندان کا کیا ہو گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب امریکا کے دانشور طبقے کو تلاش کرنا چاہیے، کوئی شخص کسی کو جائز ناجائز طریقے سے قتل کرتا ہے تو دنیا کے ہر ملک میں اس کی سزائے موت یا عمر قید ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلمند کے ہلاک ہونے والوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر کاٹی گئی قتل کرنے والے کو عام طور پر سزائے موت دی ہے۔کیا نیٹو فورس کے فوجیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ بنے گا، کیا اس دوستانہ قتل کے قاتلوں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی؟

دنیا بھر میں سامراج کی لے پالک انسانی حقوق کی ہزاروں تنظیمیں بنی ہوئی ہیں، کیا افغان اہلکاروں کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں ان اہلکاروں کے قتل کے لیے آواز اٹھائیں گے؟ اگر نیٹو کی فوج غلطی سے 19 افراد کا قتل کرنے کے بجائے 19 طالبان کو دیدہ دانستہ قتل کرتیں تو کیا ان کے لیے کوئی تحقیقاتی کمیٹی بنتی؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان قاتلوں کی تعریف کی جاتی اور انھیں قوم و ملک کا محافظ قرار دیا جاتا۔ کوئی بھی فوج کسی بھی ملک کی فوج جنگوں میں ہزاروں دشمنوں کو قتل کرتی ہے اور تعریف کی حق دار ٹھہرتی ہے لیکن یہی فوج دشمنوں کے فوجیوں کو قتل کرتی ہے تو اسے بہادری کے تمغوں سے نوازا جاتا ہے۔

مذہبی دشمنی ہو یا قومی دشمنی سپاہی بے خبر کو تو اپنے قومی مفاد پر قربان ہونا پڑتا ہے، یہ اصول سیکڑوں نہیں ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ کیا یہ ذہنیت درست ہے 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر کہا جاتا ہے 22 لاکھ بے قصور انسان انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیے گئے اور قاتلوں کے دل میں ذرا سی پشیمانی نہیں آئی۔ کیونکہ ان مقتولوں کا تعلق مخالف مذہب سے تھا۔ 1947ء کو گزرے اب 71 سال ہو رہے ہیں لیکن آج بھی دنیا میں مذہب کے نام پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے جس کی زندہ اور شرم ناک مثال کشمیر اور فلسطین ہے۔

کشمیر میں ہندو حکومت ہے اور فلسطین میں اسرائیلی بربریت جاری ہے، دونوں جگہوں پر مذہبی جذبات بنیادی کام کر رہے ہیں۔ رنگ، نسل، قومیت اور مذہب کے نام پر اب تک لاکھوں بے گناہ انسان ہلاک کردیے گئے۔ ہلاک ہونے والوں کے لاکھوں خاندان برباد ہو گئے دنیا بھر میں فوجیوں کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے مختلف ملک مختلف ترغیبات سے کام لیتے ہیں، بھارت میں جنگوں میں مارے جانے والے فوجیوں کو آنجہانی کہا جاتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی قوموں کی برتری کے لیے لڑنے والوں کو مختلف ناموں سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، دنیا کے دانشوروں کی نظر میں جنگوں اور مذہبی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کا رتبہ کیا ہونا چاہیے؟ اور جنگوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ مطالبہ جائز ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔