چینی نوجوان پاک چین دوستی داغدار نہ کریں!

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 24 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آ جا کے ہمارے ساتھ دو ہی دوست ملک کھڑے ہیں۔ اصلی،آزمودہ اور کھرے دوست! عالمِ عرب میں سعودی عرب اور فوری ہمسایوں میں چین ۔ چین سے ہماری دوستی امریکہ اور بھارت کو بُری طرح کھٹک رہی ہے ۔ ’’سی پیک‘‘ اُن کی آنکھ اور دل کا کانٹا بن چکا ہے ۔ پاکستان اور چین پروپیگنڈے کی اس عالمی جنگ میں بڑی مشکل اور جوکھم سے اپنی دوستی اور قریبی تعلقات سنبھالے ہُوئے ہیں ۔ پاکستانی حکام بڑی احتیاط کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ کہیں کوئی ہلکی سی غلط فہمی بھی جنم لیتی ہے تو اُسے دُور کرنی کی فوری تدابیر بروئے کار لائی جاتی ہیں ۔ اِسی طرح چین کا بھی عمل دیکھا جا سکتا ہے ۔

معاشی ، ثقافتی اور سٹریٹجک میدانوں میں دونوں ممالک اور عوام بہت قریب آئے ہیں ۔ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد چینی زبان سیکھ رہی ہے تاکہ چینی حکام اور عوام سے رابطہ کاری آسان اور سہل رہے ۔ پاکستان کی کئی جامعات ، کالجوں اور اسکولوں میں چینی زبان سکھائی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں چینی فلمیں بھی دکھائی جا رہی ہیں اور چین میں پاکستانی ڈرامے ۔اسلام آباد سے چینی زبان میں ایک ہفتہ روزہ اخبار بھی شائع ہونے لگا ہے ۔

وفاقی دارالحکومت میں چینیوں کی مخصوص گروسری کے اسٹور بھی معرضِ وجود میں آ چکے ہیں ۔ہماری لائبریریوں میں چینی لٹریچر پر مشتمل کتابیں بھی نظر آنے لگی ہیں ۔ لاریب چینی ادب باکمال اور بامعنی ہے ۔ مجھے تین چار بار چین جانے اور اس کے کئی شہروں کی سیاحت کا موقع ملا ہے ۔ چینی ائر پورٹوں پر بھی مگر ہم پاکستانیوں سے عزت کا کوئی خصوصی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے ۔ ہم تو سرکاری وفد میں ہمیشہ شا مل رہے لیکن اس کے باوصف سلوک وہی عمومی سا۔ وہی سخت پوچھ گچھ۔

پاک چین معاشی اور ثقافتی تعلقات میں مضبوطی اور قربت آئی ہے تو پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں چینی نوجوان بھی خاصی بڑی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں ۔ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں تو بکثرت ۔فیصل آباد اور سیالکوٹ ایسے نسبتاً چھوٹے شہروں میں بھی ان کا وجود محسوس ہورہا ہے ۔ہمارے شہروں میں نوجوان چینیوں کی مشکوک اور مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ کئی چینی نوجوان کئی مکروہ اور متنوع جرائم میں رنگے ہاتھوںپکڑے گئے ہیں ۔میڈیا میں اُن کی پکڑ دھکڑ اور اُن کے جرائم کے بارے میں دانستہ احتیاط اور جھجک کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کہیں پاک چین دوستی کے نازک آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے ۔

یہ احتیاط اور جھجک مگر کب تک؟ پاکستان میں موجود چینی نوجوان جب حد سے متجاوز ہو جائیں گے تو اُن کی رپورٹنگ کرتے ہُوئے کتنی اور کہاں تک احتیاط کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر چین میں موجود پاکستانی نوجوان ایسے ہی جرائم میں رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو کیا چینی میڈیا بھی پاکستان بارے ایسی ہی شرم اور جھجک کا مظاہرہ کرے گا؟ میرا مشاہدہ ہے کہ نہیں ۔اب تو پاکستان میں چینی نوجوان اتنے بُرے اور بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے لگے ہیں کہ دوست ممالک بھی ہمارمذاق اُڑاتے ہُوئے مطعون کرنے لگے ہیں کہ ’’سی پیک‘‘ کے نتائج بھگتو ۔ یہ طعنہ دینے والوں کے دل کی جلن ہم خوب سمجھتے ہیں ۔ یاد رکھا جائے کہ پاکستان میں مختلف جرائم کے مرتکب چینی نوجوان اگر آئے روز پکڑے جا رہے ہیں تو اس میں ’’سی پیک‘‘ کو ہر گز کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا ۔ شومئی قسمت سے پاکستان کی جو نوجوان خواتین چینی نوجوانوں سے شادی کے بعد دھوکہ کھا کر چین سے واپس پاکستان آئی ہیں ، تقریباً سبھی کے بیانات میں ایک بات مشترک پائی گئی ہے ۔

سب نے بیک زبان کہا ہے کہ ان چینی نوجوانوں نے خود اور ان سے رشتہ کروانے والوں نے شادی سے پہلے ہمیں یہ کہا تھا کہ لڑکا ’’سی پیک میں افسر‘‘ ہے ۔ چین پہنچ کر مگر ہماری ان بچیوں پر جو پہلا بم گرا، وہ یہی تھا کہ شادی کرنے والے چینی نوجوانوں کا ’’سی پیک‘‘ سے دُور دُور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ وہ تو نرے فراڈئیے اور دھوکے باز نکلے ۔ چینی نوجوانوں نے فراڈ کرنے کے لیے پنجاب کو مرکز بنایا ہے ۔ اور اب انکشاف ہونے اور راز کھلنے لگے ہیں تو ہم سب ہی کفِ افسوس ملنے لگے ہیں ۔ شادی کے نام پر پاکستانی خواتین کو جھانسہ دینے والے ان چینی فراڈئیے نوجوانوں کی تعداد کتنی ہے اور اب تک کتنی پاکستانی بچیاں ان کے بھینٹ چڑھ چکی ہیں ، اس بارے میں مکمل اعدادو شمار تو سامنے نہیں آ سکے ہیں لیکن ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ ہماری مسیحی بچیاں بھی ان وارداتوں کا ہدف بنی ہیں اور مسلمان خواتین بھی ۔

امریکہ اور بھارت مل کر بھی ’’سی پیک‘‘ اور پاک چین دوستی کو گزند نہیں پہنچا سکے ہیں۔ لگتا مگر یہ ہے کہ پاکستان میں موجود چینی نوجوان جو حرکتیں کررہے ہیں ، وہ یقیناً ہمارے دشمنوں کی خواہش پوری کردیں گے ( خدا نہ کرے کبھی ایسا ہو ) پہلے پہل تو یہ خبریں تواترسے آئیں کہ کراچی میں اے ٹی ایم مشینوں سے جعلی اے ٹی ایم کارڈوں اور مخصوصی اوزاروں کے ذریعے جو لاکھوں کروڑوں روپے چوری کئے جارہے ہیں، اُن میں کراچی میں مقیم چینی نوجوان ملوث ہیں ۔پھر ان چینی چوروں کی رنگے ہاتھوں گرفتار کئے جانے کی فوٹو بھی اخباروں اور ٹی ویوں میں شائع اور نشر ہونے لگیں۔

ان حوادث اور وارداتوں میں زیادہ اور تیزی سے اضافہ ہونے لگا تو ہمارے صوبائی اور فیڈرل ادارے بھی حرکت میں آئے ؛ چنانچہ کئی چینی نوجوانوں کے ساتھ پاکستانی نوجوانوں کی بھی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اب کچھ عرصہ سے جدید ڈکیتی کی ایسی وارداتیں کم ہورہی ہیں۔ اِسی دوران جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں بروئے کار چینی نوجوانوں اور ہماری پولیس کے نوجوانوں میں شدید تصادم کی خبر بھی قومی میڈیا میں آئی ۔خدا کا شکر ہے کہ اس تصادم کو مزید آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ چینی نوجوان مقامی لوگوں کے ساتھ جس طرح ’’گھل مل‘‘ رہے تھے، اس کا نتیجہ یہی نکلنا چاہئے تھا۔

اس میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ پاکستان میں موجود کئی چینی نوجوانوں کی حرکاتِ بد کی وجہ سے پاک چین تعلقات پر سایہ پڑا ہے ۔ کئی قوتوں کو اِسی کی بنیاد پر بے پر کی اڑانے کا موقع بھی میسر آیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ خوفناک خبریں پھیلانا کہ جن پاکستانی خواتین کو چینی نوجوان شادی کرکے چین لے جاتے ہیں، اُن کے گردے وغیرہ نکال کر فروخت کر دئیے جاتے ہیں ۔ یہ نہایت بیہودہ اور واہیات پروپیگنڈہ ہے اور ایسا پروپیگنڈہ پاک چین دوستی کو داغدار کر سکتا ہے ؛ چنانچہ پاکستان میں چینی اور چین میں پاکستانی سفارتخانے تیزی سے حرکت میں آئے ہیں ۔ اسلام آباد میں چینی سفارتکاروں نے ایسی خبروں پر یقین نہ کرنے کی استدعا کی ہے ۔ اپنے مبینہ چینی شوہروں کے ساتھ چین گئی کئی درجن پاکستانی بچیوں کو واپس پاکستان لایا جا چکا ہے ۔

مزید بھی واپس لائی جا رہی ہیں۔ چین میں پاکستانی سفارتکاروں نے اس ضمن میں نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے ۔ ہمارا ایف آئی اے بھی حرکت میں آیا ہے اور اس نے لاہور، اسلام آباد، سیالکوٹ ، وزیر آباد، گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے کئی فراڈئیے چینی نوجوانوں کو پکڑا ہے۔ اُن کے ساتھ کئی پاکستانی وچولے اور سہولت کار بھی دھر لیے گئے ہیں۔ دراصل یہ پاکستانی وچولے بھی برابر کے مجرم ہیں جنھوں نے چینیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی بچیوں کو اعلیٰ اور خوشحال زندگی کے خواب دکھائے اور جھانسہ دینے میں کامیاب ہو گئے ۔

دیکھا جائے تو پاکستانی خواتین سے ہونے والی شادیوں کے سکینڈلز میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجی ہے ۔ ممکن ہے بچیوں کے والدین بھی لالچ لوبھ میں آگئے ہوں۔ اسی لالچ کا کئی چینی نوجوانوں نے استحصال کیا۔ جو داغ دھبّے لگ گئے ہیں ، اُنہیں مٹانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ چینیوں سے فراڈ شادیاں کروانے والے پاکستان وچولوں کا بھی پکّاانسداد ہونا چاہئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔