- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
- حساس ادارے کے دفترکے گیٹ پرحملہ، پی ٹی آئی کارکنان دوبارہ زیرحراست
- اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کے فضائل و محاسن
- معرکۂ بدر میں نوجوانوں کا کردار
- غزوۂ بدر یوم ُالفرقان
- ملکہ ٔ کاشانۂ نبوتؐ
- آئی پی ایل2024؛ ممبئی انڈینز، سن رائزرز حیدرآباد کے میچ میں ریکارڈز کی برسات
محکمہ صحت سندھ میں کروڑوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
کراچی: محکمہ صحت سندھ میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال 2016-17 کے دوران محکمہ صحت کے حکام نے اربوں روپے کی بے قاعدگیاں کیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب رپورٹ کے مطابق متعدد اسپتالوں کو ناقص معیار کے طبی آلات اور ادویہ فراہم کی گئیں، جب کہ غیرمجاز یہاں تک کہ رٹائرڈ افسران کو سرکاری گاڑیاں دی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بے قاعدگیوں میں مختلف سرکاری ملازمین کوخلاف ضابطہ ادائیگیاں اور تنخواہیں جاری کرنا، غیرقانونی پوسٹنگز ، بغیرٹینڈر دوائوں کی خریداری، ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز میں مسائل، اور فنڈز کی مشکوک منتقلیاں شامل ہیں۔
جیکب انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز ( جمز ) ڈائریکٹر کے آڈٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ سی ڈی ایم اسمتھ اور یو ایس ایڈ کی جانب سے فراہم کیے گئے طبی آلات درست طور پر کام نہیں کررہے تھے اور ان کا معیار ناقص تھا۔ آڈیٹر جنرل کے مطابق تنصیب کے فوراً بعد طبی آلات درست کام نہیں کررہے تھے۔ ناقص طبی آلات کی فراہمی کا معاملہ یو ایس ایڈ کے پاکستان میں نمائندے کے علم میں بھی نہیں لایا گیا۔
علاوہ ازیں آلات کو درست کروانے کے بجائے اسپتال انتطامیہ نے بجٹ میں سے نئے طبی آلات خریدنے کی تجویز دے دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران مالی معاملات سے متعلق ریکارڈ آڈٹ ٹیم کو فراہم نہیں کیا گیا جس کی مالیت 10.935 ارب روپے تھی۔
علاوہ ازیں سیکریٹری ہیلتھ کے دفتر سے 6.619 ارب روپے کی گرانٹ کا ریکارڈ بھی مہیا نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دفتر سیکریٹری ہیلتھ پولیو ورکرز کو ترغیبی معاوضوں ( incentives ) کی مد میں 412 ملین روپے کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کرسکا۔ جن دیگر دفاتر نے ریکارڈ فراہم نہیں کیا ان میں ملیریا کنٹرول پروگرام ڈائریکٹر، انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز شہداد پور ڈائریکٹر، ٹی بی کنٹرول، حیدرآباد ڈائریکٹر اور مختلف سرکاری اسپتال اور ضلعی صحت افسران کے دفاتر شامل ہیں۔
یہ دیکھا گیا کہ 53 ملین روپے کی رقم گورنمنٹ اسپتال کورنگی، ڈی ایچ او آفس گھوٹکی، سول اسپتال میرپورخاص، سندھ گورنمنٹ اسپتال سعودآباد کراچی، ڈی ایچ او تھرپارکر، اور کراچی میں واقع ای پی آئی آفس پروجیکٹ ڈائریکٹر کے افسران اور حکام کو غیرقانونی طور پر ادا کی گئی۔ ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام حیدرآباد کے پروگرام مینیجر کے دفتر کے آڈٹ دوران یہ بات سامنے آئی کہ 28.7 ملین روپے ان دوائوں کی خریداری پر خرچ کی گئی جن کی میعاد ختم ہونے والی تھی۔
رپورٹ میں رٹائرڈ افسران اور غیرمجاز افراد کے زیراستعمال سرکاری گاڑیوں کے موضوع پر بھی طویل بحث کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ دیکھا گیا کہ بڑی تعداد میں سرکاری گاڑیاں رٹائرڈ افسران اور غیرسرکاری افراد کے زیراستعمال ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کسی کو لگژری گاڑیوں کے بارے میں علم نہیں، نہ ہی انتظامیہ نے ان گاڑیوں کی واپسی کے لیے کوئی اقدام کیا ہے۔ ان گاڑیوں کے ایندھن او ر مرمت کے اخراجات بھی طویل عرصے سے سرکاری کھاتوں سے ادا کیے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو 13 ملین روپے کے نقصان کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
رپورٹ کے مطابق مختلف اضلاع میں محکمہ صحت کے افسران نے کنٹریکٹ پر رکھے گئے اسٹاف کو 102 ملین روپوں کی ادائیگی کے دعوے کیے تاہم وہ ان ملازمین کے ساتھ کیے گئے معاہدے، اپوائنمنٹ آرڈرز، یہاں تک کہ حاضری کا ریکارڈ فراہم نہیں کرسکے۔ ایم ایس تعلقہ اسپتال چھاچھرو، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف اسکین ڈیزیز کراچی، ڈی ایچ او ٹھٹھہ، ڈی ایچ او سکھر، تعلقہ اسپتال سکرنڈ، تعلقہ اسپتال شہید فاضل راہو، اور ڈی ایچ او خیرپور نے اپنے انتظامی اختیارات کے برخلاف ادائیگیاں کیں۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کراچی کے آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا کہ 11 ملین روپے ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ملازمین کو ادا کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ملازمین دیگر اداروں سے تعلق رکھتے تھے مگر انھیں سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ ادویہ کی خریداری میں بے قاعدگیوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈسٹری بیوٹر یا مینوفیکچرر کے بجائے جنرل آرڈر سپلائر سے 1.211 بلین روپے کی دوائیں خریدی گئیں، اور اس مقصد کے لیے نہ تو لیبارٹری رپورٹ اور نہ ہی اتھارائزیشن سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا۔ یہ رقم پروکیورمنٹ کمیٹی تشکیل دیے بغیر خرچ کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کوٹری، تعلقہ اسپتال گھوٹکی، سندھ گورنمنٹ اسپتال پریت آباد، حیدرآباد، ڈائریکٹر گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف سائنس خیرپور میرس اور مینیجر ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام مینیجر نے دوائوں کی خریداری کے احکام جاری کیے۔
آڈٹ رپورٹ میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام میں پی سی آر کٹس کی خریداری میں قواعد کی دھجیاں بکھیرے جانے پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی سی آر کٹس اور ایچ سی وی رپپڈ ڈیوائسز کی خریداری پر 80 ملین روپے کے خلاف قواعد اخراجات کیے گئے مگر کوئی کنٹریکٹ ایگریمنٹ مہیا نہیں کیا گیا۔ ڈیلیوری رپورٹ بھی دستیاب نہیں تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2.168 بلین روپے کے اخراجات افسران اور اسٹاف کو ایڈہاک الائونس، کنوینس الائونس، ہارڈشپ الائونس، نان پریکٹسنگ الائونس، ہیلتھ پروفیشنل الائونس، رورل کمپینسیٹری الائونس اور کیژولٹی الائونس جیسے ناقابل قبول الائونسز کی مد میں ادا کیے گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔