ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد

مبین مرزا  اتوار 26 مئ 2019
ہمارے معاشرتی وجود کو لاحق بیماری کا اظہار جو علامتیں کررہی ہیں، اُن میں سے ایک عدم برداشت کا رویہ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے معاشرتی وجود کو لاحق بیماری کا اظہار جو علامتیں کررہی ہیں، اُن میں سے ایک عدم برداشت کا رویہ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

فرد کی طرح معاشرہ بھی بیمار ہوتا ہے۔

جی ہاں، اور جس طرح کوئی مرض فرد کو بے چین اور مضمحل کرتے ہوئے اس کی قوتِ ارادی کو زائل اور وجود کو کھوکھلا کردیتا ہے، بالکل اسی طرح کا معاملہ معاشرے کو لاحق ہونے والی بیماری اُس کے ساتھ کرتی ہے۔ اُس کے اجتماعی رگ و ریشے میں بے چینی پھیلاتی اور اُسے نڈھال کردیتی ہے۔ بیماری کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ اُسے موت کے منہ میں دھکیلتی رہتی ہے اور بالآخر اذیت دہ انجام سے دوچار کرتی ہے۔ فرد کی طرح معاشرے میں بھی بیماری کی علامات بہت دیر تک پوشیدہ نہیں رہتیں، بلکہ نمایاں ہوکر بیماری کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارا معاشرہ اسی صورتِ حال کا اظہار کررہا ہے۔

ہمارے معاشرتی وجود کو لاحق بیماری کا اظہار جو علامتیں کررہی ہیں، اُن میں سے ایک عدم برداشت کا رویہ بھی ہے۔ امیر غریب، پڑھے لکھے ان پڑھ، دین دار دنیا دار، ترقی یافتہ پس ماندہ، وسیع کنبے والے تنہا افراد— غرضے کہ اپنے معاشرے کے کسی بھی گروہ کو دیکھ لیجیے، آپ کو اس بات کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا کہ ہمارے یہاں عدم برداشت کا رویہ نہایت تشویش ناک حد تک پایا جاتا ہے۔ اس کا اظہار ہم سب کرتے ہیں اور کسی بڑے مسئلے، کسی نازک صورتِ حال یا کسی اَن ہونی پر نہیں، بلکہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں اور بے حد معمولی چیزوں پر بھی۔ یہاں تک کہ اُس صورتِ حال میں بھی جب بات کو ہنس کر ٹالا جاسکتا ہے یا کاندھے اُچکا کر موضوع کو بدلا جاسکتا ہے، ہمارے یہاں لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ نقشہ بتا رہا ہے کہ عدم برداشت کا رویہ ہمارے یہاں کس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کسی معاشرے میں عدم برداشت کی بیماری پیدا کب ہوتی ہے؟ اُس وقت ہوتی ہے جب اُس میں تعصب کا وائرس پھیل جاتا ہے۔ تعصب کا وائرس کسی معاشرے میں کب پھیلتا ہے؟ اُس وقت جب اس کے افراد ہر بات میں خود کو درست اور باقی سب کو غلط سمجھتے لگتے ہیں۔ اور ایسا کب ہوتا ہے؟ اُس وقت ہوتا ہے جب ہر شخص اپنی جگہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ آدمی ایسا کب اور کیوں سمجھتا ہے؟ اُس وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنے استحقاق سے زیادہ کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے کو اپنا حق اور لازمی گردانتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عدم برداشت کی بنیاد اصل میں حرص و ہوس پر ہے۔ یہ کبھی محرومی، کبھی حق تلفی، کبھی خود رحمی اور کبھی خود پسندی کے احساس کی صورت میں انسانی ذہن کے راستے معاشرے کے اجتماعی وجود میں داخل ہونے والی بیماری ہے اور ایک بار راستہ پاجائے تو معاشرے کے وجود سے اس کی روح کو نکال باہر کرتی ہے۔ روح نکل جانے کے بعد جو حال انسانی وجود کا ہوتا ہے، وہی معاشرے کا ہوتا ہے، یعنی مٹی کا ڈھیر۔

ہمارے یہاں عدم برداشت کا عالم اس وقت یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی بات سننا، اُن کے مؤقف کو سمجھنا اور انھیں وہ حق دینا قطعی طور پر چھوڑ دیا ہے جو ہم اپنے لیے طلب کرتے ہیں۔ اب ہم اختلافِ رائے کو مخالفت اور دشمنی باور کرتے ہیں۔ ہم اب اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ دیکھیں اور غور کریں کہ کسی مسئلے یا کسی الجھن کے ایک سے زیادہ پہلو بھی ہوسکتے، بلکہ ہوتے ہیں، اور کسی کے لیے کوئی پہلو اور کسی کے لیے کوئی دوسرا پہلو زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اب ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ایک سے زائد آرا اور مختلف نکتہ ہاے نظر تو دراصل اس دنیا کی رنگارنگی کے مظہر ہیں۔ یہ تنوع اس کائنات کی فطرت کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یکسانیت کا احساس جمود بن جائے اور آدمی کا دم گھٹ جائے۔ مکمل یکسانیت بے حس مشینوں میں ہوسکتی ہے، زندہ انسانوں میں نہیں۔ جس طرح انسانوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اسی طرح اُن کے سوچنے، دیکھنے اور سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہر ایک مسئلے اور معاملے میں حرف بہ حرف اتفاق تو سگے اور خون کے رشتے میں بھی ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی ضروری۔

یہ جو عدم برداشت کا عفریت ہے، یہ ہمارے یہاں ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ہماری عمر کے جن لوگوں کے حافظے میں چالیس پینتالیس برس اور اس کے پہلے کی دنیا ہے، وہ اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ اس معاشرے میں جینے کے رنگ ڈھنگ یہ نہیں تھے جو آج دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پہلے لوگوں میں برداشت اور تحمل کا مادّہ بہت تھا۔ انسان کو سب سے پہلے اس کی انسانی حیثیت میں دیکھا جاتا تھا، اس کے عقائد، سماجی مرتبے، قوم قبیلے، رنگ و نسل اور زبان میں کسی کو تعصب کی بنیاد نہیں بنایا جاتا تھا۔ انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق ایسے سب تعصبات سے بالاتر تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فرشتوں کا معاشرہ تھا اور اس میں کوئی جھگڑا، اختلاف یا دنگا فساد نہیں ہوتا تھا۔ کسی سے کوئی تعصب ہی نہیں برتا جاتا تھا اور نہ ہی کسی کا استحصال ہوتا تھا۔ نہیں، ایسا تو نہیں تھا۔ جھگڑا اور اختلاف بھی ہوتا تھا، کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہوتی ہوگی، لیکن اس کا تناسب اس قدر کم تھا کہ وہ معاشرے کے مجموعی قوام پر اثر انداز نہیں ہوپاتا تھا۔ اکثریت کا دل اور دامن دونوں صاف رہتے تھے۔ چناںچہ معاشرے میں بگاڑ کی وہ صورت نہیں تھی جو کہ اب نظر آتی ہے اور نہ ہی خوف اور گھٹن کا وہ عالم تھا جو آپ اور ہم محسوس کرتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ جوش ایسا (بقولِ خود) رندِ خراباتی بابا ذہین شاہ تاجی ایسے صوفی کی محفلوں میں جاکر بیٹھتا اور اُن کے مریدوں کے سامنے اُن کو مخاطب کرکے کہتا کہ یہ کیا تم نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ یہ بھی اُسی معاشرے میں ہوا تھا کہ جوش کو مولانا مودودی کی علالت کی اطلاع ملی اور وہ عیادت کے لیے اسپتال گئے اور پوچھا کہ مرض کی تشخیص کیا ہوئی ہے؟ بتایا گیا کہ گردے میں یا پتے میں پتھری ہے تو فوراً جواب آیا کہ مولانا اس کا مطلب ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کررہا ہے۔ اس پر خود جوش صاحب یا مودودی صاحب ہی نے قہقہہ نہیں لگایا، بلکہ اور بھی جو لوگ موجود تھے، سب کے سب اس زعفران زار محفل کا حصہ بن گئے۔ اللہ اللہ! کیسا معتدل، انسان دوست، کشادہ دل اور عالی ظرف معاشرہ تھا۔ فرد میں اور سماج میں یہ اوصاف اس لیے تھے کہ کوئی کسی کی نیت پر شبہ نہیں کرتا تھا۔ بات کو بات کی حد تک سنا اور سمجھا جاتا تھا۔ اس کے ڈانڈے خواہ مخواہ کسی فتنے یا فساد سے نہیں جوڑے جاتے تھے۔ آدمی کے کردار پر شک نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کا کوئی عمل اُس کے رشتے، محبت اور حیثیت کی نفی نہیں کرتا تھا۔ آدمی تک آدمی کی حرارت ہر حال میں پہنچتی رہتی تھی۔

ایک زمانے میں عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے تینوں بیٹوں سے ہماری ملاقاتیں رہیں۔ ہم نے شاہ جی کے بارے میں ایک واقعہ سنا تھا کبھی۔ منجھلے بیٹے عطاء المحسن صاحب سے اس کی تصدیق چاہی۔ شاہ جی لمبی لمبی تقریریں کیا کرتے تھے اور زبان کی حلاوت کا اثر یہ کہ مجمع رات رات بھر شاہ جی کو سنتا اور جھومتا رہتا۔ ایک بار کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے۔ تقریر رات کو کسی وقت شروع ہوئی اور فجر کی نماز کے آس پاس کہیں جاکر ختم ہوئی۔ گاؤں کے وڈیرے ملک صاحب یا چودھری صاحب وہ جو بھی تھا، اس نے نمازِ فجر کے بعد ناشتے کا اہتمام اپنے یہاں کیا ہوا تھا۔ شاہ جی کے ساتھ گاؤں کے اور کچھ اشراف بھی مدعو ہوں گے۔

اب صورت یہ ہے کہ ناشتا بس لگا چاہتا ہے۔ گپ شپ چل رہی ہے۔ اس زمانے کے گھروں میں رفعِ حاجت کے لیے نظام یہ نہیں تھا جو آج ہے اور گھر کے ہر کمرے میں اس طرح فلیش سسٹم باتھ روم نہیں ہوا کرتے تھے۔ عام گھروں میں کیا چودھریوں کی حویلی میں بھی نہیں۔ بہت ہوا تو دو جگہ یہ انتظام ہوگیا، یعنی ایک زنانے میں اور دوسرا مردانے میں۔ مہتر یا مہترانی صفائی کے لیے آیا کرتے تھے۔ اُس وقت شاہ جی کی جہاں نشست تھی، سوئے اتفاق، وہیں سے مہتر کا گزر ہوتا۔ سو وہ اپنے وقت پر کام کے لیے پہنچا۔ یہ بھی اتفاق کہ اُس وقت وہاں کوئی نوکر چاکر نہ تھا کہ اسے آگے بڑھنے سے روکتا کہ پھر آجانا، ابھی مہمان بیٹھے ہیں۔ اسے مہمانوں کی موجودگی میں وہاں پاکر چودھری صاحب چراغ پا ہوئے۔ اب یہ ہے کہ وہ وہاں کھڑا ہے اور چودھری صاحب اُس کی اِس ناوقت لغزش پر برافروختہ ہیں اور جھاڑ پلا رہے ہیں۔

وہ جیسے زمین میں گڑا ہے کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ شاہ جی معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اُس کی مدد ضروری سمجھتے ہیں، کہتے ہیں، اچھا بھئی اب آگیا ہے تو جاکر اپنا کام بھی نبیڑآ۔ مہتر کیا جانے یہ بزرگ کون ذات شریف ہیں۔ سو وہ ڈرتے جھجکتے چودھری صاحب کی طرف نظریں اٹھاتا ہے۔ وہاں اب خاموشی ہے جسے وہ اجازت کا کنایہ جانتا ہے اور تیزی سے کام کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔ کام کرکے لوٹتا ہے تو اس سے بھی زیادہ برق رفتاری سے اس جگہ گزرنا چاہتا ہے کہ پھر وہی بزرگ آواز لگاتے ہیں، بھئی کام نبیڑ لیا ہے تو جا اب ہاتھ دھوکر آجا، ناشتا ہمارے ساتھ کرلے۔ شاہ جی بات کرتے ہیں اور چودھری سمیت سارا مجمع گم صم۔ کس میں ہمت کہ شاہ جی کی بات کاٹے یا کہے کہ نہیں، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔

اُدھر مہتر کو یقین ہی نہیں آتا کہ کیا سن رہا ہے۔ حیرت، بے یقینی اور خوف کے ملے جلے جذبات سے رک کر نظریں اٹھاتا ہے۔ بزرگ کا مسکراتا ہوا چہرہ حوصلہ دلاتا ہے تو وہ کہتا ہے، میں— میں جی! میں تو چوڑا۔ شاہ جی کہتے ہیں، او بھئی تو بندہ بھی تو ہے۔ یہاں بندے ہی ناشتا کرنے بیٹھے ہیں۔ جا تو بھی ہاتھ دھو کر آجا۔ اب اس نے پھر ہمت کرکے چودھری صاحب کے چہرے کی طرف نظریں اٹھائیں۔ وہاں مکمل خاموشی ہے، لیکن تناؤ نہیں، اطمینان ہے۔ گومگو کی کیفیت میں وہ آگے بڑھ گیا۔

اب وہ اُس گھر کے کسی ملازم کو دیکھ کر اس کی طرف لپکا ہوگا اور پوچھا ہوگا کہ بھائی یہ بتا آخر یہ بزرگوار کون ہیں کہ ایسا کرنے کو کہتے جیسا میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا، ارے دیکھنا تو کجا سوچا تک نہیں۔ کون ہستی ہیں یہ کہ ان کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، اور تو اور چودھری صاحب بھی چپ ہیں۔ بتانے والے نے اپنے انداز سے بتایا ہوگا، لیکن اُس کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اضطراب کی لہر جیسے جسم میں دوڑنے لگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا، کیا کرے۔ باقی گھروں کا کام چھوڑ وہ الٹا اپنے گھر لوٹ جاتا ہے۔ پھر لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ ہاتھ دھوکر نہیں لوٹا، بلکہ نہا دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر پلٹا ہے۔ شاہ جی اُسے آتا ہوا دیکھتے ہیں تو ذرا سرک کر اپنے پاس جگہ بناتے ہوئے کہتے ہیں، آجا بھئی، یہیں آجا۔ یہ جھجھکتا کانپتا قریب ہوتا ہے اور بھیگی آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ کہتا ہے، شاہ جی لقمہ بعد میں لوں گا پہلے کلمہ پڑھا دیں۔ اللہ غنی!

شاہ جی تو بڑے آدمی تھے اور زمانہ بھی خاصا پہلے کا ہے، ایک واقعہ چار پانچ عام سے نوجوانوں کا سن لیجیے اور بات بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ یہی کوئی چونتیس چھتیس برس پہلے کی ہے۔ یہ نوجوان بھی ایسے ہی تھے، جیسے ہر زمانے کے اکثر نوجوان ہوا کرتے ہیں۔ پڑھنا پڑھانا تو جو تھا سو تھا، اچھلنے کودنے اور کھیلنے کھلانے کے زیادہ شوقین تھے۔ اس لیے اسکول کی ہاکی اور کرکٹ دونوں ٹیموں کا حصہ تھے۔ کالج میں آئے تو کرکٹ کے ہورہے۔ ایک روز میچ کھیل کر واپسی ہورہی تھی۔ سب کے سب ایک سے تھے، کھلنڈرے اور شوخ۔ بس ایک ذرا سا الگ نظر آتا تھا کہ وہ شیو نہیں بناتا تھا۔ باپ کا، نانا یا دادا کا اثر تھا کہ نوجوانی میں ڈاڑھی رکھ لی تھی۔ سائیکل چلاتے ہوئے اس نے مغرب کی اذان سنی تو ساتھیوں سے کہا، آؤ نماز پڑھتے ہیں۔ ہمہ یاراں بہشت۔ سب نے اثبات میں سر ہلایا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ایک احاطے پر نگاہ پڑی۔ آثار عبادت گاہ کے تھے اور گیٹ یوں کھلا ہوا جیسے کبھی بند ہی نہ کیا جاتا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب مسجدیں اور امام بارگاہیں خوف اور وحشت کی سرحد سے باہر ہوا کرتی تھیں۔ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا تک نہ تھا۔

خیر، نوجوانوں کا یہ قافلہ سائیکلوں کے ساتھ احاطے میں داخل ہوا۔ سائیکلیں کھڑی کیں، بلا، پیڈ اور وکٹ وغیرہ ان پر جمایا اور سب کے سب وضو کرنے جابیٹھے۔ وضو کرکے جب اندر پہنچے تو وہاں آدم نہ آدم زاد۔ سمجھ گئے کہ امام بارگاہ میں آگئے۔ یہاں مغرب ذرا دیر میں ہوگی۔ شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں۔ اتنے میں امام بارگاہ کے خادم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سنی لڑکے ہیں، اس لیے وضو کرکے وقت سے پہلے آن پہنچے، ان کی طرف قدم بڑھائے اور قریب آکر کہا، یہاں تو ابھی اذان نہیں ہوئی، تھوڑی دیر ہے۔ تم اپنی نماز پڑھ لو اِدھر۔ لڑکوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ڈاڑھی والا امام بن کر کھڑا ہوا، باقیوں نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو خادم کو صحن میں کچھ کام کرتے دیکھا۔ اس کے پاس جاکر ہاتھ ملایا۔ اس نے کہ سن رسیدہ تھا، نوجوانوں کو سلامتی اور آبادی کی دعا دی۔ یہ سائیکلوں پر سوار ہوئے اور پھر اسی طرح ہنستے بولتے اپنے رستے پر چل دیے۔

ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے۔ ایک بچہ پہلی یا دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ اسے صبح میں تو اس کے والد اسکوٹر پر بٹھا کر اسکول لے جاتے ہیں، لیکن دوپہر میں جب چھٹی ہوتی ہے تو سائیکل پر ملازم لینے آتا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں معمول یہ ہے کہ ملازم راستے میں ایک گھر کے آگے سائیکل روکتا ہے۔ وہاں ایک بڑے میاں چھاؤں میں چارپائی ڈالے بیٹھے ہیں۔ سرھانے کی طرف گھڑونچی پر ایک صراحی دھری ہے اور اس پر اسٹیل کا گلاس اوندھا رکھا ہے۔ ملازم سائیکل روکتا تو بچہ بھی سائیکل سے اترتا ہے۔ دونوں جاکر بڑے میاں کو سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے ہیں۔ وہ انھیں چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود اٹھتے ہیں اور صراحی سے پانی گلاس میں انڈیل کر پہلے بچے کو دیتے ہیں۔

وہ پانی پیتا ہے، کبھی پورا نہیں پی پاتا تو گلاس میں پانی بچ بھی جاتا ہے۔ اسی بچے ہوئے پانی میں بڑے میاں اور پانی انڈیل کر ملازم کو دیتے ہیں۔ وہ پی کر گلاس واپس کرتا ہے تو بڑے میاں اپنے لیے پانی لیتے ہیں اور اُن کے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے سے پڑھائی اور اسکول کی دو ایک باتیں کرکے پھر وہ ملازم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہاں بھئی رامو، تمھاری ماتا جی کب آرہی ہیں گڑگاؤں سے؟ دیکھو، تم پہلے ہی اُن کو چٹھی لکھ کے بھیج دو کہ اب کی وہ تمھارا گھر بسا کے یہاں سے لوٹیں۔ پہلے تمھاری پتنی گھر میں لاکے بسائیں پھر خود واپس جائیں۔ رامو کھی کھی کرکے دانت نکوستا ہے اور کہتا ہے، ماشٹر جی! مجھے شرم لگتی ہے، اپنے منہ سے کیسے کہوں ماتاجی سے۔ ماسٹر جی، رامو کی حیاداری سے محظوظ ہوتے ہیں، لیکن اس جواں سال آدمی کی آنکھوں میں گھر بسنے کے ذکر پر پیدا ہونے والی چمک سے بھی خوش ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں، ارے یار تم مجھے لادو ماتا جی کا پتا، میں خود بہن جی کو خط لکھوں گا اور ساری بات پکی کرلوں گا۔ اُس وقت تو پانچ چھے برس کے بچے کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا، لیکن آج بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے وہ اُس گئے زمانے کو یاد کرتا ہے تو سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ وہ بڑے میاں— ’’ماشٹر جی‘‘ کسی اسکول میں پڑھانے والے ماسٹر جی تھے یا کوئی ولی تھے، اور وہ رامو— جس کا پورا نام رام لعل تھا، رام دین تھا یا رامانند یا پھر خدا جانے کچھ اور— وہ کھتری نوجوان ماسٹر جی کو واقعی کیسا عزیز تھا کہ اس ہندو کو پانی پلا کر وہ گلاس دھوئے بغیر پانی انڈیلتے اور خود پینے بیٹھ جاتے۔ پھر خود ہی اُسے خیال آتا ہے، آخر کیوں نہ ہوتا وہ انھیں عزیز کہ وہ بھی تو مسلمان بچے کا چھوڑا ہوا جھوٹا پانی ایسے ہی پی لیتا تھا جیسے امرت ہی تو پی رہا (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔