خُدا نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 26 مئ 2019
 دولت مجھ پر بارش کی طرح برس رہی تھی، صرف برسات نہیں موسلا دار برسات

 دولت مجھ پر بارش کی طرح برس رہی تھی، صرف برسات نہیں موسلا دار برسات

قسط نمبر45

بھائی جان، جنہیں دنیا میں سب کچھ بنا طلب کیے ہی مل گیا تھا، نے بتایا تھا کہ میں وہ منظر کبھی نہیں بُھول سکتا کہ جب ہوائی جہاز میں بیٹھا، ایک تو جہاز کا میرا پہلا سفر تھا، میں آسمان میں اُڑتا ہوا جہاز دیکھتا تو سوچتا کہ یہ کیسے اڑتا ہوگا، اس میں کون لوگ بیٹھتے ہوں گے، یہ اندر سے کیسا ہوگا، اتنا بڑا جہاز آسمان تک کیسے چلا جاتا ہے، میں بس سوچتا ہی تھا، میں نے تو کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا کہ ایک دن اس سے سفر کروں گا۔

میری اوقات تو صرف ریل گاڑی اور بس کی تھی اور ان کا کرایہ بھی کئی مہینے پہلے سے جمع کرنا پڑتا تھا، تو جب میں نے پہلی مرتبہ جہاز دیکھا تو بہت حیران ہوا اور پریشان بھی، حیران تو اس لیے تھا کہ یہ میری سوچ سے بھی بہت بڑا تھا، اور پریشان اس وقت ہوا جب میں جہاز میں سوار ہوا تو میں نے دیکھا کہ کتنے امیر کبیر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ مجھے بھی بٹھایا گیا ہے تو بہت جذباتی ہوگیا تھا۔ اتنا جذباتی کی اسلام آباد تک میں روتا ہوا گیا تھا کہ اس مالک نے مجھے بھی جہاز میں بیٹھنے کے لائق بنایا اور اس کا شُکر ادا کرتا رہا کہ اس نے ممی ڈیڈی جیسے لوگوں کو میرے لیے وسیلہ بنایا۔

اسلام آباد ایئر پورٹ پر میری امی، ابا اور بھائی، بہنیں آئی ہوئی تھیں، اور سچ پوچھو تو میرے ماں باپ اور بہن بھائی تو ایئر پورٹ دیکھ کر ہی اتنے خوش تھے جیسے انہوں نے دنیا کا کوئی بہت بڑا خزانہ دیکھ لیا ہو، وہ سب کچھ میں کبھی نہیں بُھول سکتا۔ پورے گاؤں میں میری دھوم مچی ہوئی تھی، گاؤں میں ہی کیا آس پاس کی بستیوں میں بھی۔ میرے والد، والدہ، بہن، بھائی فخر سے سر اٹھائے ہوئے تھے، عزیز رشتے دار دعوتیں کر رہے تھے، اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، ہمیں تو کوئی پوچھتا تک نہیں تھا اور اب سب واری جارہے تھے۔ ایک ہفتہ لمحوں میں ہی گزر گیا اور میں واپس کراچی آگیا۔ ڈیڈی میرے کام سے بے حد خوش تھے۔ بس یوں سمجھو خدا نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ڈیڈی اور ممی کچھ دنوں کے لیے جرمنی چلے گئے اور جاتے ہوئے ساری ذمے داریاں مجھ پر ڈال گئے۔

جاتے ہوئے انہوں نے مجھے بس اک بات کہی تھی۔ دیکھو بیٹا! اگر تم بیساکھیوں سے چلو گے تو چل تو تم لو گے، لیکن دوڑ نہیں سکو گے، تمہیں دوڑنا ہے تو اس لیے کسی بیساکھی کا سہارا مت لینا، تمہیں جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔ ڈیڈی نے مجھے کہا تھا میں کچھ دنوں کے لیے جارہا ہوں، مجھے یقین ہے تم سارے کام پوری ذمے داری، اعتماد اور دل جمعی سے کروگے، میں فون پر رابطے میں رہوں گا، پہلے خود سوچنا اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچو تو مجھ سے پوچھ لینا، لیکن مجھے خوشی ہوگی اگر تم سارے کام خود سر انجام دو، اس عرصے کو اپنا امتحان سمجھنا اور جو کچھ سیکھا ہے اسے اب ثابت کرنے کا وقت آگیا کہ تم اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرو۔ میں نے ان کی باتیں بہ غور سنی تھیں۔

سچ یہ ہے کہ میں خود کو ان کے بغیر صفر سمجھتا تھا، وہ ساتھ ہوتے تو مجھے ذرا سی بھی پروا نہیں تھی، اس لیے کہ ذمے داری تو ڈیڈی کی تھی، میں تو بس ان کا ہیلپر ہی تھا۔ جب ڈیڈی جانے لگے تو میں گھبرا گیا تھا اس لیے کہ اب ساری ذمے داری میری تھی کہ میں خود کو اس کا اہل ثابت کروں، لیکن میں اسے اتنا آسان نہیں سمجھتا تھا، اس لیے رات بھر سو بھی نہیں سکا۔ وہ پہلا دن بھی مجھے کبھی نہیں بھولے گا جب میں لیباریٹری میں تنہا تھا اور مجھے اکیلے کام کرنا تھا۔ میں نے دروازہ بند کیا، کچھ دیر تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کچھ نہیں کر پاؤں گا، میں خالی الذہن تھا، پھر میں نے خود کو سنبھالا اور اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلا کر بیٹھ گیا، میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے، میں اپنے رب سے کہہ رہا تھا: اے مالک تُو ہی مجھے اس مقام تک لے کر آیا ہے، میں تو کچھ بھی نہیں تھا، میں تو ساری عمر ہوٹل پر برتن دھونے آیا تھا، میں نے تو اس پر قناعت کرلی تھی اس لیے کہ میں اپنی اوقات جانتا تھا، اے مالک میں نے تو کبھی اپنی اوقات سے زیادہ تجھ سے کچھ مانگا بھی نہیں ہے۔

یہ سب کرم تو تُونے بن مانگے ہی کیا ہے تو مالک اب میرا ہاتھ تھام لے۔ اس کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جیسے مجھ میں کوئی بجلی بھر گئی ہے اور پھر میں اپنے کام میں ایسا مگن ہوا کہ مجھے وقت کا احساس بھی نہیں ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی نادیدہ قوت مجھ سے سب کچھ کروا رہی ہے، میں انتہائی اعتماد سے اپنا کام کر رہا تھا۔ مجھے تنہا کام کرتے ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے اور اس دوران سارے کام بالکل درست ہوئے تھے، اور کوئی شکایت نہیں آئی تھی۔ ڈیڈی نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، البتہ ممی دن میں دو مرتبہ میری خیریت کا پوچھتی تھیں، بیس دن گزر چکے تھے کہ ممی نے مجھے اپنی واپسی کا بتایا۔ اس وقت تک میں ڈرائیونگ بھی سیکھ چکا تھا، ہوا یوں تھا کہ ایک دن ہمارے مِل کا اکاؤنٹینٹ جو ڈیڈی کے بہت قریب تھا، میرے پاس آیا اور کہنے لگا، تم کار چلانا کیوں نہیں سیکھتے۔ تو میں کہا، کوئی سکھائے گا تو سیکھ لوں تو اس نے مجھے کار چلانا سکھا دی تھی بل کہ مجھے مِل کی طرف سے کار بھی دے دی گئی تھی۔

وہ دن بھی میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا جب میں کار چلاتے ہوئے ممی ڈیڈی کو لینے ایئرپورٹ گیا تھا، میری اس پر بھی تعریف کی گئی کہ میں ڈرائیونگ سیکھ گیا ہوں، انہوں نے مجھے بہت پیار کیا۔ میں نے ڈیڈی سے شکوہ کیا کہ آپ نے تو مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ وہ مسکرائے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ روزانہ چار مرتبہ مِل میں کال کرکے میری کارکردگی معلوم کرتے رہے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ اس دوران میں نے کو ئی غلطی نہیں کی، مجھے یہ بھی سن کر حیرت ہوئی تھی کہ انہوں نے ہی اکاؤنٹینٹ سے کہہ کر ڈرائیونگ سکھائی اور پھر مجھے کار لے کر دی تھی۔ اس کے بعد تو ساری ذمے داریاں مجھے سونپ دی گئیں اور اﷲ کا احسان ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔

دس سال بیت گئے تھے اور اب میں اس کام کے ماہرین میں شمار ہونے لگا تھا، دولت مجھ پر بارش کی طرح برس رہی تھی، صرف برسات نہیں موسلا دار برسات۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں اتنے پیسے آخر کہاں خرچ کروں۔ پھر ایک دن ڈیڈی اور ممی نے وہ کہا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ڈیڈی اور ممی نے کہا: ’’بیٹا! اب تم سب کچھ سیکھ چکے ہو ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے، تم ہی ہمارے بیٹے ہو۔ تم نے بہت محنت کی ہے اور خود کو اس کام کا اہل ثابت کیا ہے اور بیٹا ہونے کا حق بھی ادا کیا ہے۔ میں نے اس ٹیکسٹائل مل کے اپنے حصے کے تمام شیئر تمہارے نام منتقل کردیے ہیں اب ہمیں واپس جرمنی جانا ہے۔ اس لیے ہم اگلے ہفتے جا رہے ہیں۔ تم جرمنی ضرور آنا اور ہم بھی کبھی کبھی آیا کریں گے۔‘‘

یہ سن کر مجھے ایسا لگا کہ میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ میرے آنسو رک ہی نہیں رہے تھے، لیکن حقیقت سامنے تھی، میں نے ان کی بہت منت سماجت کی، بہت رویا، لیکن وہ وقت بھی آہی گیا جب ممی ڈیڈی مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ اب میں مل کا مالک تھا، پھر زندگی بدل گئی تھی۔ میں کئی مرتبہ جرمنی گیا اور ممی ڈیڈی بھی یہاں آئے۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کی ممی ڈیڈی کا سڑک کے حادثے میں انتقال ہوگیا۔ آج میرے پاس جو کچھ ہے، اور سب کچھ ہے، وہ ان ہی کی دین ہے۔ اﷲ نے انہیں وسیلہ بنا دیا۔ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اب ادھورا ہوں۔ وہ تھے تو جینا بہار تھا۔ تو یہ تھی بھائی جان کی جیون کتھا۔

آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ اگر کسی کے پاس پیسہ آجائے تو اکثر کی چال ڈھال ہی بدل جاتی ہے، وہ اپنی اوقات میں ہی نہیں رہتے، نودولتیا کہتے ہیں جنہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس میں بخل اور لالچ بھی گَھر کر لیتے ہیں۔ اب آگے کی کہانی جس کا میں چشم دید ہوں آپ کو سناتا ہوں۔ بھائی جان میں سخاوت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ اپنے ورکرز کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح سے سنبھالتے تھے۔ ان کے لباس، خوراک، علاج اور دیگر سماجی ضروریات سیر و تفریح تک کا بھی پورا خیال رکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

رمضان المبارک میں انہوں نے دس مقامات پر ایسے پھل فروش منتخب کیے تھے جن سے ان کے مزدور روزانہ کی بنیاد پر تین سو روپے کے پھل خریدتے تھے، اور پھر وہ ہر اتوار کو ان پھل فروشوں کو ادائیگی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے مٹھائی کی دکانیں بھی منتخب کی ہوئی تھیں جن سے ان کے مزدور ہفتے میں ایک مرتبہ اپنی پسند کی ایک کلو مٹھائی لے سکتے تھے۔ مختلف علاقوں میں انہوں نے ایسے درزی بھی منتخب کیے ہوئے تھے جن سے ان کے ورکرز کپڑے سلواتے اور ان سب کی اجرت بھائی جان ادا کیا کرتے تھے۔ عید کے موقع پر سب میں عیدی بانٹتے تھے اور سخاوت کے ساتھ۔ ان کے گھر جاتے اور ان کے بچوں میں بھی تحائف تقسیم کرتے۔ عید ِقرباں پر سارے مزدوروں میں قربانی کے بکرے تقسیم کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ان کے بچے ضد کریں گے تو یہ کہاں سے لائیں گے، ان کی بھی خواہشات ہیں۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ مل میں بوائیلر پھٹ گیا تھا اور سات مزدور جھلس کر شدید زخمی ہوگئے تھے۔ صبح سویرے ہم پہنچے تو ایک منیجر نے کہا: ’’انہیں سول اسپتال بھیج دیتے ہیں۔‘‘ بھائی جان نے اسے سب کے سامنے تھپڑ مار دیا تھا اور کہا تھا: ’’یہی مزدور ہیں جن کی محنت سے تمہیں تن خواہ ملتی اور میں عیاشی کرتا ہوں۔‘‘ اور پھر سارے مزدوروں کو شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ سات ماہ تک زیر علاج رہے اور پھر انہیں تین ماہ کی مزید رخصت دے کر ان کے گاؤں بھیجا گیا اور جب مکمل صحت یاب ہوگئے تب وہ اپنے کام پر واپس آئے۔

نئی گاڑیوں کا انہیں بہت شوق تھا۔ بہترین لباس زیب تن رکھتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے نئی نکور کار لی، اور اپنے ڈرائیور کو شوروم بھیجا۔ راستے میں کار کا حادثہ ہوگیا اور وہ مکمل طور تباہ ہوگئی۔ انہیں جب معلوم ہوا تو وہاں پہنچے اور اپنے ڈرائیور کو دیکھا اور کہا: پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کار تو نئی بھی لے سکتے ہیں، تمہیں کچھ ہوجاتا تو کیا کرتے۔

ایک مرتبہ بیرون ملک جارہے تھے تو اس کے سفارت خانے پہنچے، ویزہ افسر نے ان سے پوچھا کہ وہ کب تک واپس آجائیں گے؟ انہوں نے اسے بہ غور دیکھا اور کہا: جب تک جاگ سکتا ہوں آپ کے ملک میں رہ لوں گا اور کام ہوتے ہی واپس آجاؤں گا۔ ویزہ افسر کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے پوچھا: میں سمجھا نہیں کہ جب تک جاگ سکتا ہوں سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ انہوں نے اس سے کہا: جب تک میں جاگ سکتا ہوں تو آپ کے ملک میں رہ لوں گا اور واپس آجاؤں گا اس لیے کہ مجھے نیند تو اپنے ملک کی مٹی میں ہی آتی ہے۔

عبادات کا اہتمام کرتے میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا، لیکن ان کے لوگوں سے معاملات کا میں شاہد ہوں کہ وہ ذرا سی بھی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوئے، کبھی نہیں۔ وہ انتہائی انسان دوست تھے۔ میں نے کبھی بھی ان کے پاس سے کسی کو بھی خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ بلا کے سگریٹ نوش اور بزلہ سنج، اپنے محلے، اپنے مزدوروں اور عام لوگوں کا بے انتہا خیال رکھنے والے۔ خاموشی کے ساتھ ان کی ضروریات کو پورا کردینے اور اس کے بعد یک سر بُھول جانے والے سخی۔ فقیر جانتا ہے کہ ان سے کتنے ہی لوگوں نے فوائد حاصل کیے اور ایسے بھی کہ اکثر نے ان سے ادھار لے کر شہر کی امراء کی بستی میں مہنگے مکانات خریدے اور پھر وہ حساب چُکتا بھی نہیں کیا۔ ایک دن میں ان کے ساتھ تھا تو کسی نے کیا آپ بھی وہاں کوئی اچھا سا بنگلہ خرید سکتے ہیں تو کیوں نے خرید لیتے تو انہوں نے اسے کہا تھا: میں اسی بستی کی مٹی کا ہوں، اپنے لوگوں میں پروان چڑھا ہوں، اپنی بستی میں ہی خوش ہوں، مجھے آسمان میں نہیں اڑنا زمین پر ہی رہنا ہے اور میں اسی میں خوش ہوں اور مجھے کسی بھی اجنبی بستی میں رہنا پسند ہی نہیں ہے۔

عجب انسان تھے بھائی بھی، واہ کیا بات تھی ان کی۔ سخی انتہائی کھلے دل کے، خوش خوراک و لباس و خوش اطوار بھائی جان کا جب انتقال ہوا تو ایک بھی آنکھ ایسی نہیں تھی جو برس نہ رہی ہو۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اپنے رب کے بہت چہیتے تھے اسی لیے تو اُس کی مخلوق پر مہربان تھے، ہر پل مہربان، چلے جانا تو سب ہی نے ہے، کون رہا ہے اس دُنیا میں برقرار،

کچھ بھی تو نہیں رہے گا، کچھ بھی نہیں، بس نام رہے گا اﷲ کا، جو اول بھی ہے آخر بھی۔

کھجوروں کے درختوں سے بھی اُونچا

مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا

عبداللطیف ابُوشامل
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔