سب سے سستی رعایا لے لو

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 25 مئ 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

روپے کی قدر میں کمی ہوئی ۔ پاکستانی کرنسی بھارت ، افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی کمزور ہوگئی۔ معروف امریکی نیوز ایجنسی بلوم برگ نے روپے کی قدرکے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی روپیہ گزشتہ 9ماہ کے دوران کارکردگی کے لحاظ سے ایشیاء کی بدترین کرنسی قراردیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان میں ایک ڈالرکے 79 افغانی ملتے ہیں جب کہ بھارت میں ایک ڈالر0 7 روپے کا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک ڈالر 84 ٹکے کے برابر ہے۔ جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تھی تو ڈالر 124 روپے 50 پیسے کا تھا اور اب ’ہفتے کے شروع میں یہ 151 روپے کا ہوگیا تھا پھر 153 روپے ہوگیا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹرقیصر بنگالی کی پیشنگوئی ہے کہ ڈالر 250 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔

ڈالرکی قیمت بڑھنے سے ملک کی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی ہے۔ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ روپے کی قدر کم ہونے سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پہلے پیٹرول،  ڈیزل، مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھیں، پھر سوئی گیس اور سی این جی کے نرخ بڑھ گئے، ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کی ایک لہر ہمیشہ آتی ہے مگر اس دفعہ روپے کی قیمت کم ہونے سے ہر شعبہ میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی دگنی ہوگئی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ کی طرح لوگوں کو مہنگائی برداشت کرنے اور اچھے دنوں کی آمد کا درس دے رہے ہیں۔ وفاقی وزراء جو چند ہفتوں میں نوکریوں کی بھرمارکی خوش خبری سنا رہے تھے اب آئی ایم ایف سے معاہدے کو درست قرار دے رہے ہیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کی بھی عجب کہانی ہے۔ عمران خان جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کی خرابیاں بیان کرتے تھے تو فخر سے کہتے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر خودکشی کرنا ہوگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی یہ ڈاکٹرائن جاری کیا کہ آئی ایم ایف کے بجائے چین اور سعودی عرب سے قرضے لیے جائیں گے مگر اسی وقت بعض ماہرین معاشیات نے تنبیہ کی تھی کہ دوست ممالک کے قرضوں کو اتارنے کے لیے اگلے سال لازمی طور پر آئی ایم ایف سے بات چیت کرنی پڑے گی۔ اس دوران حکومت خارجہ محاذ پرکوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

وزیر اعظم عمران خان کے چین کے کامیاب دورے کے بعد چین کا مؤقف تبدیل ہوا۔ چین کا سلامتی کونسل میں امریکا، فرانس، برطانیہ سے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے بارے میں اتفاق رائے ہوگیا۔ اسد عمر واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے آئے تو اپنے عہدے سے سبکدوش کردیے گئے۔

وزیر اعظم نے معیشت سے متعلق اپنی پوری ٹیم تبدیل کردی۔ اب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، شبر زیدی اور ڈاکٹر باقر رضا اس ٹیم کا حصہ بن گئے اور اس ٹیم نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدے پر وفاقی کابینہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی حکومت نے اس معاہدے کی پارلیمنٹ سے منظوری کا عندیہ دیا مگر اس ٹیم کی تبدیلی کے ساتھ روپے کی بے قدری انتہائی سطح پر پہنچ گئی۔

بھارت کا تو ذکر ہے کیا اب پاکستانی کرنسی افغانستان، نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے چلی گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ تقریباً 2 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکبر زیدی اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حکومت انتخابات کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے رجو ع کرتی تو زیادہ بہتر تھا۔ اب آئی ایم ایف سے دیر سے رجوع کرنے کی سزا عوام کو ہی ملے گی۔ انھوں نے آئی ایم ایف کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ایک ساتھ قرضے کی رقم ادا نہیں کرتی۔ یہ رقم مختلف اقساط میں فراہم ہوتی ہے۔

اس دوران آئی ایم ایف کی ٹیم قرضے کی شرائط پر عملدرآمد کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو تو بقیہ اقساط روکی جاسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کے لیے اگلے مہینے آنے والے بجٹ کے لیے کوئی کشش نہیں رہی۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ حکومت دفاعی اخراجات میں اضافہ کرے گی۔ تعلیم، صحت اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی۔

اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صحت کے بجٹ میں کٹوتی کردی ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بار بار اس بات کا اعادہ کررہے ہیں کہ وفاق نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی گرانٹ اب تک جاری نہیں کی ہے جس کی بناء پر ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں اور اس بات کا خوف پیدا ہوگیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور عام آدمی کو ریلیف کی اسکیمیں شامل نہ کریں۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا اور پیسیفک کی مالیاتی دہشت گردی کی ٹاسک فورس کی نئی پابندی معیشت کو مزید سکیڑ دے گی۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ غیر رسمی معیشت پر مشتمل ہے۔ دوسری پاکستانی معیشت بین الاقوامی معیشت سے منسلک ہے ۔ جب عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا تو ان کی معاشی ٹیم نے اس بات کا ادراک نہیں کیا کہ جب نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر تاجروں اور صنعت کاروں کے احتساب کا فریضہ انجام دے گی تو اس کے ملکی معیشت پر کتنے منفی اثرات برآمد ہونگے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے سرمایہ کاروں نے نئے منصوبے شروع کرنے سے اجتناب کیا ہے جس کی بناء پر معیشت فعال نہیں ہوسکی ہے۔ جب بھی کوئی نئی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے پرکشش مراعات کا اعلان کرتی ہے، یوں سرمایہ کاری کے نئے راستے کھل جاتے ہیں مگر گزشتہ 9 ماہ کی صورتحال بالکل مختلف تصویر پیش کررہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے کرنسی کا کاروبارکرنے والے تاجروں کا اجلاس طلب کیا اور انھیں ہدایت کی کہ ڈالرکی قیمت کو بڑھنے نہ دیا جائے مگر وزیر اعظم نے جیسے ہی اجلاس ختم کیا مارکیٹ سے ڈالر ناپید ہوگیا۔ اسی دوران حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کیا۔ خزانہ کے مشیر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کراچی آئے اور گورنر ہاؤس میں تاجروں کو حکومت کی اقتصادی پالیسی کے بارے میں آگہی دی مگر اسی دوران کراچی اسٹاک ایکسچینج کریش کرگئی۔ سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے۔

دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کے ساتھ رویہ سخت کرلیا۔ اگرچہ حکومت نے آئی ایم ایف کے سابق افسروں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ڈاکٹر باقررضا کو معاشی ٹیم کی قیادت سونپی مگر ٹیم کی تبدیلی کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ اس دفعہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قیمت میں استحکام کے لیے مداخلت نہیں کی۔ حکومت نے اب اسٹیٹ لائف، ای او بی آئی کو سرمایہ کاری کے لیے کہاہے تاکہ روپے کی قیمت میں استحکام پیدا ہوسکے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سب عارضی اقدامات ہیں۔

وفاقی حکومت اگر عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کو اپنی ترجیح سمجھتی ہے تو اس کو ریاست کے انفرااسٹرکچر میں تبدیلی اور خارجہ پالیسی کو اقتصادی پالیسی سے منسلک کرنے کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام غیر پیداواری اخراجات بشمول دفاعی اخراجات میں خاطرخواہ کمی کرے ۔ پروفیسر طارق جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ اکاؤنٹنگ کے شعبے میں گزارا ہے ۔کہتے ہیں کہ درآمدی پالیسی میں انقلابی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے صرف انتہائی ضروری اشیاء درآمد ہونی چاہیے ۔کرپشن کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے مگر اس مہم سے تاجروں اور صنعت کاروں میں جو بددلی پھیلی ہوئی ہے اس کو دورکرنے کے لیے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ خارجہ پالیسی کی بنیاد اقتصادی ترقی ہونی چاہیے۔

پاکستان کو امریکا اور یورپی ممالک کے ان تحفظات کو دورکرنے کے بارے میں غوروفکرکرنا چاہیے جن کی بناء پر ماضی کی طرح یہ ممالک پاکستان کی اس مشکل صورتحال میں مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے سخت شرائط پر قرضے دے رہے ہیں۔ بھارت، افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش سمیت تمام ممالک سے تجارت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی پالیسی ہی بہت سے مسائل کا حل ہے۔ ٹیکس امراء پر لگنے چاہئیں اور ان کا اثر غریب عوام پر نہیں پڑنا چاہیے۔ عوام کے حالات کیسے ہیں نور الہدیٰ شاہ نے چند جملوں میں بیان کیے ہیں:

ٹھیلے پر رکھا ہے ملک

ملک لے لو

رعایا لے لو

سب سے سستی رعایا لے لو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔