سیاسی عجائبات

عبدالقادر حسن  ہفتہ 25 مئ 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک کئی غیر فطری سیاسی اتحاد وجود میں آئے لیکن اپنے غیر فطری ہونے کی وجہ سے جلد ہی دم توڑ گئے۔

ان غیر فطری سیاسی اتحادوں کی یاد یوں آئی کہ آج کل ایک بار پھر ایسا ہی ایک غیر فطری سیاسی اتحاد تشکیل پا رہا ہے اور یہ سیاسی اتحاد اپوزیشن کی ان جماعتوں کا ہے جو ملک میں دو پارٹی سسٹم کے تحت کئی مرتبہ اس ملک پر حکمرانی کر چکی ہیں لیکن جب بھی تیسرے فریق کو حکمرانی کا حق ملا ہے تو ان دونوں سابقہ سیاسی حریفوں نے تیسری سیاسی پارٹی کے خلاف کمر کس لی ہے اور اپنے ماضی کو بھلا کر وقتی طور پر اپنی سابقہ طعن و تشنیع کو کہیں دبا کر اپنے ضمیر کو میٹھی نیند سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کیا کیا جائے پاکستانی عوام کا جو اس غیر فطری اتحاد کو قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس اتحادکے خلاف طرح طرح کے تبصرے اور طنز کے نشتر چلا رہے ہیں کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں ان کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنے مفادات کی خاطر یکجا ہو رہی ہیں اور عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آج سے ایک دہائی قبل بھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ایک تاریخی میثاق جمہوریت طے پایا تھا اوراس میثاق پر لندن میں محترمہ بینظیر شہید اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے دراصل یہ میثاق جمہوریت نہیں تھا بلکہ دونوں پارٹیوں کے درمیان مک مکا اور مفاہمت کا ایک معاہدہ تھا کہ مل جل کر پاکستان پر حکومت کی جائے اور کسی تیسرے فریق کی حکومت میں دخل اندازی کے راستے بند کر دیے جائیں ۔

اس مک مکا کا نتیجہ پاکستانی عوام دس برس تک بھگتتے رہے، پہلے دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ برس کا اقتدارمکمل کیا اور نواز لیگ نے اقتدار کے پانچ برس مکمل کرنے میں اس کی بھر پور مدد کی بعد ازاں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن نے نواز لیگ کو اقتدار کے پانچ برسوں میں اپنا مکمل تعاون فراہم کیا وہ تو برا ہو پانامہ لیکس کا جس کی وجہ سے نواز حکومت ڈگمگا گئی اور ان کی اصل اپوزیشن عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے پانامہ کے مسئلے کو عدالت تک پہنچا کر نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے اتارنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔

میاں نواز شریف اپنے خلاف مختلف مقدمات میںجیل آجا رہے ہیں اور اس وقت بھی وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں اور جیل سے باہر ان کی صاحبزادی محترمہ مریم صفدر اپنا سیاسی کردارادا کرنے کی کوشش میں ہیں ان کی سیاسی رونمائی اورتعارف تو گزشتہ الیکشن مہم میں ہو چکا ہے لیکن اب وہ ایک اپوزیشن رہنما کے باقاعدہ طور پر نواز لیگ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ بطور اپوزیشن رہنما ان کی پہلی بڑی رونمائی گزشتہ دنوں ان کی سابقہ سیاسی حریف پارٹی پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے افطار پارٹی میں ہوئی ۔ بلاول بھٹو نے اپوزیشن کے رہنماؤں کو افطاری پر بلایا جہاں پرحکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنایا گیا اور یہ اعلان سامنے آیا کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا جائے گا جس کا مرکزی نقطہ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور ملک کے معاشی حالات ہوں گے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اپوزیشن کی پارٹیاں حکومت وقت کے خلاف اکٹھی ہو رہی ہیں اپوزیشن کا اصل کام ہی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر کے اپنا وقت گزارنا ہے اور اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے نواز لیگ نے اپنے سیاسی حریف کے افطار ڈنر میں شرکت کی بلکہ ایک بار پھر اپنے ان سیاسی حریفوں سے بھی رجوع کیا ہے جن کے بارے میں نواز لیگ کی صف اول کی قیادت کے خیالات سے پوری قوم آگاہ ہے ۔ میاں نواز شریف کے ذہن میں اس رجوع ، سیاسی رشتے داری اور مفاداتی اتحادکے معنی نہ جانے کیا ہوں گے لیکن پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر نواز لیگ کو اپنے در پر بلانے اور اپنی حمایت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ۔

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ عمران خان کی حکومت کے خلاف مشترکہ جدو جہد کر کے اپنی قیادت پر بنائے گئے مقدمات کا دفاع کرنے کی کوشش کریں گی ۔ اس سیاسی گٹھ جوڑ کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کو ہوگا کیونکہ ان دونوں کے خلاف نیب میں بدعنوانی کے جو مقدمات چل رہے ہیں حکومت مخالف سیاسی جد و جہد تیز کر کے ان مقدمات میں سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

میاں نواز شریف کی موجودہ سیاست پاکستانی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ ایک ایسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنانے جارہے ہیں جس پر وہ ماضی میں تنقید کرتے رہے ہیں اورجناب زرداری کے متعلق ان کے برادر خورد کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے نواز لیگ کے ووٹر اور سپورٹر مایوس نظر آتے ہیں ۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ملک کی دونوں اپوزیشن پارٹیوں میں اپنے اپنے بچاؤ کی خاطر اتحاد طے پا رہا ہے ۔

اپوزیشن کا یہ اتحاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اپوزیشن کی پارٹیاں ایک چھتری تلے اکٹھی ہونے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اپوزیشن کے متحرک رہنما مولانا فضل الرحمٰن بہت جلدی میں دکھائی دیتے ہیں وہ اس حکومت کے آغاز سے ہی دھرنوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مولانا حکومت سے ایک مدت کے بعد باہر ہوئے ہیں ورنہ ان کا طرزسیاست ہر حکومت کا ساتھی ہونا ہے مگر اس مرتبہ عمران خان کی حکومت نے ان کو لفٹ نہیں کرائی اور نتیجتاً مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن کرنے پر مجبور ہیں ۔

اس ساری صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی رشتے داری پر مجبور ہو گئی ہیں جس سے ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ عوام کے سامنے ان کے اصل چہرے بے نقاب ہو گئے ہیں ۔ یہ لوگ پرانے سیاستدان ہیں اور سیاست کرنا اورسیاست کھیلنا

جانتے ہیں ان دونوں پارٹیوں نے نہایت برے وقتوں میں بھی کامیابی کے ساتھ سیاست کی ہے اور اب ایک بار پھر ان دونوں کے لیے مشکل وقت لوٹ آیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل وقت سے وہ کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں اور اپوزیشن کا یہ غیر فطری اتحاد کیسے چلتا ہے۔ نیرنگی سیاست اسے کہتے ہیں، عجائبات زمانہ اسی کا نام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔