شہادت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰؓ

سید محسن کاظمی  ہفتہ 25 مئ 2019
mohsin014@hotmail.com

[email protected]

جب ہمارے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 30 سال کی تھی اور اعلان نبوت کے دس سال باقی رہ گئے ، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے ہی خاندان بنی ہاشم کے سید وسردار عبدالمطلب کے بیٹے ابو طالب جو اس وقت بنی ہاشم کے سب سے زیادہ معتبر بزرگ تھے کو ایک ایسا فرزند عنایت کیا جن کا مقصد آغاز تبلیغ رسالت میں دامے ، درمے، سخنے، معاونت کرنا ہے، یعنی وہ فرزند دین اسلام کی نصرت اور حفاظت کے لیے خلق ہوا۔

جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے چالیس سال کی عمر میں الاعلان تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تو ابوطالب کا یہ فرزند جس کا نام ماں نے حیدر اور رسول اکرم نے علی رکھا تھا اس کی عمر دس سال تھی مگر وہ پہلے دعوت ذوالعشیرہ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ اگرچہ میں عمر میں چھوٹا ہوں مگر یہ عہد کرتا ہوں اپنی حیات کا ہر لمحہ آپکی نصرت میں گزار دوں گا۔ یہی وہ موقع تھا جس پر رسول اللہ ؐ نے یہ اعلان کیا یا علی تم میرے وصی ہو گے، میرے خلیفہ ہو گے اور دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو گے اور تاریخ کے اوراق یہ گواہی دے رہے ہیں جو کچھ وعدہ ابو طالب کے فرزند اصغر علی حیدر نے دعوت ذوالعشیرہ میں کیا اس پر اسی وعدہ کے مطابق تاحیات عمل کیا۔

یہاں کر رہا ہوں جس سے مولائے کائنات علی ابن طالبؓ کی سیرت کو سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔ جب سر کار دوجہاں جناب رسول اللہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے آپکے استقبال میں جو جوش دکھلایا اس نے اہل مدینہ کی محبت جو صرف اللہ کے رسول کے لیے تھی وہ دنیا پر آشکار کر دی ، مدینہ منور میں اہل قباء کے لوگوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک ایسی جگہ بتا دیں جہاں ہم سب ملکر عبادت کیا کریں ۔کلثوم بن ہدم کی ایک افتادہ زمین تھی جس پرکھجوریں سکھائی جاتی تھیں انھوں نے یہ جگہ حضورکو پیش کی تو آپ نے تمام اصحاب سے کہا کہ میری اوٹنی کو لاؤ جسکا نام قصویٰ تھا۔

جب اونٹنی آپ کے پاس پیش کی گئی تو پہلے ابو بکر ؓ کو اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب کوکہا کہ اس اونٹنی پر سوار ہو جاؤ جب پہلے ابوبکر صدیقؓ سوار ہوئے تو اونٹنی اپنی جگہ سے نہ ہلی پھر حضرت عمر سوار ہوئے مگر قصویٰ اپنی جگہ سے نہ ہلی اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو کہا علی تم اس قصویٰ پر سوار ہوجاؤ جب یہ قصویٰ پر سوار ہوئے تو فوراً وہ اٹھ گئی اور چلنے کے لیے تیار ہوگئی تب آپ نے اصحاب سے متوجہ ہو کر فرمایا۔ ’’اس کی مہارکو چھوڑ دو یہ حکم کی گئی ہے جس طرح چاہے گھومنے دو ۔‘‘ یہ اونٹنی جس طرف چلتی جاتی حضور ﷺ اس مسجدکی حدود معین کرتے رہے جب اس نے پورا چکر مکمل کر لیا تو وہ ایک چبوترے پر جا کر بیٹھ گئی اور اس طرح مدینہ منورہ میں پہلی مسجد جس کا نام قباء ہے تعمیر ہوئی ۔

یہ تاریخ کا ایک واقعہ ہے اب یہ قارئین کا کام ہے کہ وہ اس واقعہ پر غور کریں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر علی ؑ المرتضیٰ کو کیوں بٹھایا وہ اہل ایمان کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے ۔ یہ وہ علی بن ابوطالب ہیں جن کے لیے رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خندق کے موقعے پر یہ فرمایا تھا کہ آج ایمان کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے ۔ یعنی وہ جنگ تھی جس میں کافر وں کی طرف امرا بن عبدود جو بڑا بہادر شجاع تھا لوگ اس کے نام سے لرزتے تھے اگر کامیاب ہوجاتا تو آج تک پھیلنے والا اسلام ختم ہوجاتا۔ یہی حیدر کرار جنھیں شاہ مرداں ، شیر یزداں کہا جاتا ہے یہ تمنا لے کر جنگ میں جاتے تھے کہ شاید مجھے رتبہ شہادت نصیب ہو لیکن زمانہ رسول اللہ کی جنگیں ختم ہو گئی جن کی تعداد تقریباً 80 غزوات ہے مگر علی ابن ابو طالبؓ فاتح اور غازی بن کر آتے رہے بعد وصال رسول اللہﷺ بھی جنگیں ہوئیں صفین، نہرواں لیکن مولائے کائنات علی ابن ابوطالب شہید نہ ہوئے اور تمنا شہادت دل میں موجود تھی۔ ۳ عام الفیل میں پیدا ہونے والا ابوطالب ؓ کا فرزند آج 4 ہجری میں عراق کے شہر نجف اشرف میں بحیثیت خلیفہ المسلمین اسلام کی خدمت انجام دے رہا ہے۔

جب 4 ہجری کا رمضان المبارک آیا اور آپ حسب روایات بعد نماز مغربین جو خطبہ پڑھتے تھے تو اپنے دونوں فرزندوں حسن مجتبیٰ ؑ اور حسینؑ شہید کربلا سے یہ پوچھتے ’’بیٹا یہ بتاؤ اب کتنے روزے باقی ہیں‘‘ اور جواب سن کر آبدیدہ ہوتے ہوئے کہتے تم لوگوں کو اللہ پورے روزے رکھنے کی توفیق دے۔ مطلب یہ تھا کہ یہ اللہ کا ولی اُس وقت کو دیکھ رہا تھا جب وہ روزے کی حالت میں مسجد میں سجدہ کے لیے اُٹھے گا تو ابن ملجم زہر آلود تلوار سے آپکو شہید کرے گا جب شبِ 19 رمضان آئی تو اس دن ملعون ابن ملجم نے آپ کے سر پر اس جگہ ضرب لگائی جہاں اس عبدود نے خندق کی جنگ میں زخم لگایا تھا ۔

آپ کو زخمی حالت میں جب مسجد سے بیت الکلثوم کی طرف لے جایاجا رہا تھا تو کہتے ہیں لوگوں نے ایک صدا سنی قد قتیل امیرالمومنین ؑ ، تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں یہ صدا پہنچی تو ہرگھر سے لوگ روتے ہوئے باہر نکل آئے اس میں مردوں سے زیادہ بچے اور عورتیں تھیں یہ وہ لوگ تھے جن کے گھروں میں امیر المومنینؑ رات کے اندھیروں میں اپنے چہرے پر نقاب رکھ کر جاتے اور روزانہ کا راشن اور غذا لے جاتے تھے جب دو دن تک ان کے گھروں پر راشن نہ پہنچا تو وہ سمجھ گئے جو شخص ہمارے گھروں پر آ کر ہماری مدد کرتا تھا اور چہرے پر نقاب رکھتا تھا وہ کوئی نہیں ہمارا امیرالمومنین ہمارا خلیفہ وقت تھا۔

وہ علیؓ جو تمنائے شہادت رکھتے تھے جب ضرب لگی ہے تو آپ سجدہ میں چلے گئے اور خاک ِ زمین اُٹھاتے ہوئے ایک سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے قرآن پڑھتے ہوئے کہا ’’ ہم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس مٹی میں دفن ہونا ہے‘‘ اور ایک عجیب وغریب جملہ کہا کہ’’ فزت برب کعبہ‘‘ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا ۔یعنی علی المرتضیٰ ؑ کی نظر میں کامیابی اس موت میں ہے جس میں شہادت ہو، وہ جانتے تھے وہ شیر خدا ہیں انھیں کوئی میدان کار زار میں شہید نہیں کرسکتا ، لیکن وہ شہادت کی موت چاہتے تھے۔ یہ علی ابن ابوطالب ؓ کی بڑی فضیلت ہے کہ وہ اللہ کے گھر میں بیت اللہ میں پیدا ہوئے اور اللہ کے گھر میں یعنی مسجد میں شہادت پائی ، مولائے کائنات ، علی ابن ابو طالب کی زندکی کا ہر لمحہ دین اسلام کے لیے وقف نظر آتا ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو دنیا اسلام کے مانے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

علامہ اقبال نے علی ابن ابو طالب ؓ کا ذکر اس طرح کرکے حقِ محبت ادا کر دیا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے

ایک سجدہ شبیری، ایک ضرب یدالٰہی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔